کامران غنی صبا، مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان
سو گیا موت کی آغوش میں روتے روتے
رات بھر اپنے لطیفوں سے ہنسانے والا
یاد نہیں آ رہا ہے کہ یہ شعر کس کا ہے لیکن جس کا بھی ہو اس وقت اسرار جامعی صاحب مرحوم پر بالکل صادق آ رہا ہے. اسرار جامعی کوئی گمنام شاعر نہیں تھے. دنیا انہیں جانتی تھی اور خوب اچھی طرح جانتی تھی. ہاں... وہ دنیا کو نہیں جانتے تھے. بالکل نہیں جانتے تھے. تبھی تو انہیں یہ دن دیکھنا پڑا....کہ اپنوں نے آنکھیں پھیر لیں... ادبی دنیا نے انہیں زندگی میں ہی مردہ قرار دے دیا... وہ اپنی زندگی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے دفاتر کی خاک چھانتے رہے. بہار سے لے کر دہلی تک نہ کوئی ادارہ ان کی مدد کے لیے سامنے آیا اور نہ ہی شعر و ادب کی وہ عظیم شخصیتیں جو اپنے شعر و ادب میں رنگ ڈالنے کے لیے سماج کے دبے کچلے طبقات سے اظہار ہمدردی کا ڈھونگ کرتی ہیں. ادب تخلیق ہوتا رہا اور "ادب سماج" کا ایک فرد گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی کی آخری سانس کے لیے جدوجہد کرتا رہا...... ہم شاید اسی دن کے انتظار میں تھے. اب ہم روئیں گے...... سوشل میڈیا پر تصویروں کی نمائش ہوگی... مضامین لکھے جائیں گے.... اخبارات میں اسرار جامعی پر خصوصی ضمیمے شائع ہوں گے... تعزیتی نشستیں ہوں گی... کئی دنوں تک تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری رہے گا... یادگاری سمینار اور مشاعرے بھی ہو سکتے ہیں... رسالوں کا خصوصی نمبر بھی نکل سکتا ہے...... اور پھر ہم کسی نئی موت کے انتظار میں اپنے فوٹو البم کو وسیع کرنے میں لگ جائیں گے کہ کہیں کسی شاعر اور ادیب کی موت ہو اور ہمارے پاس اس کے ساتھ کھینچوائی ہوئی تصویر نہ ہو تو ہم کسی کو کیا منھ دکھائیں گے...؟
یاد آ رہا ہے کہ کچھ روز قبل بشیر بدر صاحب کے تعلق سے ایک ویڈیو رپورٹ دیکھی تھی. دیکھ کر میں پندرہ سال پہلے پہنچ گیا تھا. سمستی پور میں ایک مشاعرہ تھا. میں اس وقت انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا. شعر و شاعری سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا. ہاں سننے کا شوق ضرور تھا. اسی شوق میں والد محترم (ڈاکٹر ریحان غنی) اور بشیر بدر صاحب کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں سمستی پور جانے کا اتفاق ہوا. بشیر صاحب کے عروج کا آخری زمانہ تھا. وہاں پہنچتے ہی میڈیا والوں اور ان کے مداحوں نے انہیں گھیر لیا. مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ لوگ کسی شخصیت کے ایسے دیوانے کیسے ہو جاتے ہیں. رات میں بہت دیر تک بشیر صاحب کے ہی کمرے میں رہا. پھر جب بشیر صاحب پے در پے شراب کی بوتلیں انڈیلنے لگے تو شاید والد محترم نے مصلحتاً مجھے وہاں سے ہٹا دینا مناسب سمجھا اور سونے کے بہانے سے مجھے ایک بڑے سے ہال میں (جہاں پہلے سے بہت سارے شعرا موجود تھے) پہنچا دیا............فلش بیک سے واپس آتے ہی میں ایک عجیب سی فکر اور کرب کی کیفیت میں ڈوب گیا. ویڈیو میں بشیر صاحب کی اہلیہ بہت ہی خوبصورت انداز میں گلہ کر رہی تھیں کہ ایک زمانہ تھا جب بشیر صاحب کے پاس گھر کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا. آج ان کے وہ مداح جو ان پر جان چھڑکتے تھے ان سے دور ہو گئے... باہر کی دنیا ان کے لیے ختم ہو چکی. اللہ بشیر بدر صاحب کو صحت و عافیت اور طویل عمر عطا فرمائے. ان جیسے لوگوں کی زندگیاں ہمارے لیے درس عبرت ہیں کہ کیسے وقت آنے پر اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں. عزت.... شہرت.... دولت.... انعامات و اعزازات، تعلقات سب کچھ عمرِ حاصل کا لاحاصل ہو جاتا ہے... اس وقت یہ قول سچ ثابت ہوتا ہے.... "اللہ بس.. باقی ہوس....آییے عہد کریں کہ آئیندہ کسی شاعر، ادیب یا صحافی کو اس طرح تڑپ تڑپ کر نہیں مرنے دیں گے. اگر سرکار، ادبی ادارے یا اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات ان کی مدد کے لیے آگے نہیں آتی ہیں تو ہم لوگ مل جل کر دست تعاون دراز کریں گے.... ورنہ اس طرح منافقت کے آنسو بہا کر ہم مضامین اور سوشل میڈیا کے لیے پوسٹ تو لکھ سکتے ہیں، اپنے دل اور روح کو مطمئن نہیں کر سکتے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں