تحریر: وزیر احمد مصباحی (بانکا)شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
{موجِ خیال}
محترم قارئین! یہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کا دور ترقی یافتہ دور ہے۔زمانہ قدیم کی بنسبت آج ایسی مختلف و حیرت انگیز چیزیں وجود میں آگئی ہیں__جس کا نام سن کر اور پڑھ کر بالکل وہ انسان جو دیہات اور گاؤں کے باشندے ہیں،یہ سوچ کر ہی حیرت زدہ ہو جاتے ہیں کہ کیا ایسی چیزیں بھی کبھی وجود میں آسکتی ہیں؟ ایک وقت تھا کہ لوگ دیا اور لالٹین کی مدھم مدھم سی روشنی میں اپنے سارے کام پورے کر لیتے تھے۔،چراغ کی ہلکی ہلکی سی شعاعوں نے نہ جانے کتنی ہی ایسی ہستیوں کو اپنے ارد گرد جگہ عطا کرکے بلندیوں سے ہمکنار کردیا جن کے تعارف سے دنیا ناواقف تھی۔آج یہ بات بھی زبان زد خاص و عام ہے کہ یہ دنیا سوشل میڈیا کا ہے۔سوشل میڈیا نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ لوگ گھر بیٹھے ہی اپنی باتوں کو دنیا بھر میں نشر کر سکتے ہیں۔جی ہاں! یہ اس قدر آسان ہے کہ آپ چند ڈیٹاز کی مدد سے گھنٹوں بھر کا کام سیکنڈوں میں کرسکتے ہیں۔ایک وہ مختصر سا پیغام جس سے زمانہ قدیم میں دوسروں کو باخبر کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، آج محض اسکرین پر انگلیاں چلاتے اور نمبر ڈائل کرتے ہی آپ چند سیکنڈوں میں مخاطب تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر آپ معلومات حاصل کرنا چاہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آج اس طرح مختلف ایپس اور ویب سائٹس موجود ہیں جس کی مدد سے آپ مکمل استفادہ کر سکتے ہیں۔فیس بک،واٹسایپ، بلاگر،ویبسائٹس،انسٹاگرام اور Twitter وغیرہ ایسے مختلف ذرائع ہیں ، جسے آج لاکھوں و ہزاروں لوگ استعمال کر رہے ہیں۔میرے اپنے خیال کے مطابق Twitter کے بعد اگر زیادہ استعمال ہونے والوں میں کسی کا نام آتا ہے تو وہ Facebook ہے۔شاید ہی کوئی ایسا بندہ ملے جو فیس بک استعمال نہ کرتا ہو۔۔۔ورنہ تو آپ کو دس میں سے نو افراد ایسے ضرور ملیں گے جو فیس بک استعمال کرتے ہیں۔
اس وقت جہاں تک میری معلومات ہے اس کی روشنی میں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ Facebook university میں اپنے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے۔ جی ہاں!یہ ٹیوٹر وغیرہ استعمال کریں یا نہ کریں مگر فیس بک ضرور استعمال کرتے ہیں۔یقینا !!! یہ بالکل ہی اچھی بات ہے کہ آپ فیس بک سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو روزانہ نئی نئی خبروں کی روشنی میں حالات حاضرہ کے مطابق اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔مگر یہ حقیقت بھی واقعی انتہائی افسوسناک اور رحم کن ہے کہ یہاں ایک دوسروں کی ٹانگ کھینچنے والوں کی تعداد میں دن بدن کافی ترقیاں ہوتی چلی جارہی ہیں۔ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، مختلف القابات سے نوازنا، ایک دوسرے کے پیر و مرشد پر طعنے کے تیر برسانا، پگڑیاں اچھال کر نیچا دکھانے کی کوشش کرنا، اور خانقاہوں پر انگلیاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ بھونڈی و بدترین گالیوں سے نوازنے کا عمل کافی ترقی پر ہے ۔اے کاش! کہ اس سے کہیں زیادہ مثبت کارنامہ انجام دینے والوں کی تعداد ہوتی اور اسلام و مسلمان دشمنوں کو دندان شکن جواب دینے کی کوشش کرتے تو پھر بات ہی کچھ اور ہوتی۔
اس وقت ہمارے اپنے وطن عزیز میں کورونا کے پیچھے نظام الدین {دہلی} کے تبلیغی مرکز پر گودی میڈیا نے انگشت نمائی کرکے اسلام و مسلمانوں کو بد نام کرنے کی جو ناپاک سازشیں کی ہیں وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ خود ہمارا بھی کوئی میڈیا ہاؤس ہو تاکہ انصاف و دیانت داری کے ساتھ سچ و جھوٹ کے درمیان خط امتیاز کھینچ کر سماج و معاشرے میں نفرت پھیلانے والوں کے اردگرد آہنی دیوار قائم کی جاسکے اور ہماری گنگا جمنی تہذیب مزید تباہ و برباد ہونے سے بچ جائے۔مرکز نظام الدین کے سنگین معاملات کے بعد ہی جس طرح Twitter پر (جہاں دنیا بھر کے انگنت افراد موجود ہیں) سنگھیوں نے اسلام و بھارتی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا اور عالمی سطح پر اس کی ایک بناوٹی غلط شبیہ اجاگر کرنے کی کوشش کی وہ ان کے ناپاک عزائم کو ہر سنجیدہ افراد کے سامنے کھول دینے کے لیے کافی ہے۔مگر __یہاں ضرورت تھی کہ دشمن کی چال کو سمجھ کر ہماری طرف سے بھی Twitterکے سہارے اسے جواب دیا جائے اور انھیں اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ مسلمان کا مطلب دہشت گرد نہیں بلکہ امن و آشتی کا درس دینے والا ہوتا ہے۔وہ لوگ جو دہشتگردی کرتے ہیں ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی رشتہ و ناطہ نہیں ہوتا ہے۔ہاں! اسلام تو وہ پسندیدہ مذہب ہے جو اتحاد واتفاق کادرس دیتاہے اور انسانی دلوں میں پیار و محبت اور آپسی بھائی چارہ کا جوت جگاتا ہے۔
بھلا ہو ان ہزاروں علماےکرام کا کہ جنھوں نے ان سنگھیوں کے ناپاک عزائم کو بروقت بھانپ لیا اور پھر ان کو Twitter کے ذریعہ ہی یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ نہیں__مسلمان کا مطلب آتنکی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا مفہوم تو انسانیت کی شمع روشن کرنے والا ہوتا ہے۔اور پھر چند ہی لمحوں میں اس طرح मुस्लिम मतलब खिदमतगार کا ٹرینڈ چلا کہ ان سنگھیوں کے عقل ٹھکانے لگ گئے۔جی ہاں! آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم فیس بک پر وقت گزاری کرنے کے بجائے ٹیوٹر پر آئیں اور قلیل جملوں و کم وقتوں میں اپنی بات عالمی سطح پر بلند کریں،ساتھ ہی Twitter کی طاقت کو ہمیشہ مد نظر رکھیں۔اس ضمن میں میں ٹویٹرکے نئے صارفین کے خاطر محب محترم مولانا قمر رضا دربھنگوی صاحب کی وہ چند قیمتی اور مفید باتیں رقم کر دینا یقیناً رہنما خطوط ثابت ہوں گی،جسے انھوں نے حال ہی میں تحریر کیا ہے۔ملاحظہ ہوں،آپ لکھتے ہیں:
" چند گزارشات ٹیوٹرصارفین سے:کیوں کہ آپ مسلمان ہیں ۔
1-بات ہميشہ کام کی کریں فضول ٹیوٹ سے بچیں۔
2-نفرت کا جواب محبت سےدیں، نفرت سےبلکل نہیں ۔
3-اپنی بات ادب کے دائرے میں رکھیں ۔
4-زبردستی کسی کو نشانہ نہ بنائیں ۔
5- کوئی ضروری نہیں ہر کوئی فالو بیک کرے، اس کو اس طرح سمجھیں کہ سلام میں پہل صرف با اخلاق لوگ ہی کرتے ہیں ۔
6-ٹیوٹر کے علاوہ مذہبی کتابوں کا مطالعہ اس نظریے سے کریں کہ مخالفین اسلام کو معقول جواب دیا جاسکے، اس انداز میں کہ بغیر متاثر ہوئے نہ رہ سکے۔
7-دین کی اچھی باتیں ہندی، اردو، انگلش اور دیگر زبانوں میں ضرور پیش کریں ۔
8- ہمارے ٹیوٹر پر آنے کا مطلب نفرت ہرگز نہیں ہے بلکہ محبت سے ہم زمانے کو اپنا اسیر کر کے چھوڑیں گے۔
9-ہم ٹیوٹر پر بنفس مسلمان اسلامی ہیش ٹیگ چلاتے ہیں، یہاں سنی، دیوبندی، اہل حدیث وغیرہ نہ کریں، پہلی بات کوئی ایسا ٹیوٹ نہ کریں جس سے مسلکی نفرت کی بدبو آتی ہو، پھر بھی بحیثیت انسان اگر کوئی ایسا ٹیوٹ پڑھنے کو مل جائے تو نظر انداز کر دیں ۔ہاں آپ اپنے مسلکی عقائد قرآن و سنت کی روشنی میں ضرور پوسٹ کریں ۔
10-آخری بات خصوصی طور پر مصباحی برادران کے لیے یوٹیوب آپ کا انتظار کر رہا ہے اسے بیوہ نہ چھوڑیں ۔اس تعلق سے کسی بھی مشورےیا مدد کے لیے مجھے میل کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں