اسرار جامعی کی ادبی خدمات پر مشتمل کتاب جلد منظر عام پر
دربھنگہ(یواین اے نیوز 4اپریل2020)دبستان عظیم آباد کے عظیم اور بے باک شاعر، ملکی و غیر ملکی سطح پر طنز و مزاح شاعری کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے علامہ اسرار جامعی دنیا کو خیرآباد کہہ گئے۔آپ عرصہ دراز سے دہلی مقیم تھے اورتن تنہا بدحال،بے یارو مددگار کی زندگی گزار رہے تھے۔آپ کا بیشتر وقت کرایہ کے مکان سے ہسپتال کے فاصلہ طے کرنے میں گزر رہا تھا، آپ کی زندگی کا یہ سب سے بڑا المیہ رہا کہ آپ کے بہاری ہوتے ہوئے بھی بہار کا ادبی حلقہ ان کی قدرو منزلت سے کوسودور رہاجبکہ دہلی کا ادبی حلقہ بہاری ہونے کے ناطے جیتے جی آپ کو قبول نہیں کر سکا جس کا ملال آپ کو عمر بھر رہا، یہاں تک کے دہلی حکومت کے سرکاری فائلوں میں آپ کو مردہ قرار دے کر آپ کی پینشن روک دی گئی۔ مذکورہ باتیں علامہ اسرار جامعی کی ادبی خدمات پر کام کر رہے نوجوان صحافی و سوانح نگار محمد عارف اقبال نے اسرار جامعی کے انتقال پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ عار ف اقبال نے کہا کہ علامہ اسرا ر جامعی کے انتقال سے مجھے ذاتی صدمہ ہوا ہے۔ گزشتہ چار سالوں سے ان کے قریب تھا، آپ کی خواہش کے مطابق آپ کے سوانح و ادبی خدمات پر کام شروع کیا تھاجسے آپ کی زندگی میں ہی شائع کرنے کا ارادہ تھا مگر افسوس وہ اس سے پہلے ہم سے رخصت ہو گئے،اردو ادب میں طنز و مزاح کے حوالے سے بڑا ذخیرہ آپ نے چھوڑا ہے جسے انشاء اللہ بہت جلد خراج عقیدت کے طور پر کتاب منظر عام پر آئے گی۔
عارف اقبال نے کہا کہ اسرار جامعی ہماری سماجی بے حسی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے، کبھی انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ آخری وقت تک خودداری سے جیئے۔ اسرار جامعی کے خدمات کے حوالے سے عارف اقبال نے کہا کہ آپ شاعر کے ساتھ صحافی بھی تھے۔ ایک زمانے تک بہار سے ”چٹنی“ اور دہلی سے ”پوسٹ مارٹم“ مختصر اخبار شائع کرتے رہیں جس کے آپ چیپ ایڈیٹر(چیف ایڈیٹر) تھے۔آپ کے والد ولی الحق ایک تعلیم یافتہ اور باذوق انسان تھے، دادا محمد کلیم بہار کے مشہور صحافی اور سر سید احمد خان کے ہمعصر تھے۔ اسرار جامعی سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے آخری شاگردوں میں تھے۔جامعہ کے زمانہ طالب علمی سے ہی آپ کوشاعری سے لگاو پیدا ہوا۔ آپ کی اکثر نظمیں، غزلیں ”پیام تعلیم“ اور دوسرے رسائل میں چھپنے لگے تھے، مشہور شاعر رضا نقوی واہی کے جب قریب آئے تو ان کی شاگردی اختیار کی۔ رضا نقوی واہی نے ہی آپ کی شاعری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے علامہ کا خطاب دیا۔ اسرار جامعی صاحب ہندوستانے کے علاوہ جدہ، دبئی اور امریکہ کے مشاعروں میں بھی ہندوستان کی نمائندگی کی اور طنزو مزاح کے حوالے سے منفرد مقام بنایا۔ آپ کا دیوان ”شاعر اعظم“ بیس سال قبل شائع ہوا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں