تازہ ترین

بدھ، 5 فروری، 2020

جو شہریت کا ثبوت ہم سے مانگتے ہیں:انہیں بتاؤ کے ہندوستاں ہمارا ہے:شائستہ ثناء

دیوبند: دانیال خان(یواین اے نیوز 5فروری2020)عیدگاہ میدان میں دس ویںروز جاری خواتین کے غیر معینہ دھرنے میں جہاں مین گیٹ پر بابا ئے قوم مہاتما گاندھی اور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کا گیٹ بنایا گیا ہے وہیں میدان میں ہندوستان کے نقشہ پر نو سی اے اے،این آر سی اور این پی آر لکھا گیا ہے،ساتھ ہی نوجوانوں نے عیدگاہ میدان میں دیوبند ستیہ گرہ کے نام سے ایک بہت بڑا بورڈ بھی لگا دیا ہے اسکے علاوہ دھرنا گاہ میں ایک بورڈ ایسا بھی لگایا گیا ہے جو سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اس آدم قد بورڈ پر ہندی اور اردو میں آئین کی تمہید لکھی ہوئی ہے اور اسے خوبصورت انداز میں سجایا گیا ہے۔اتنا ہی نہیں سوشل میڈیا پر دھرنے کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کرنے کے لئے نوجوانوں نے الگ پیج بھی بنائے ہیں جو مختلف سائٹس کے ذریعہ پروگرام کو لائیو بھی دکھا رہے ہیں۔مظاہرے میں جہاں خواتین بڑی تعداد میں اپنی حاضری درج کرا رہی ہیں وہیں متعدد سیاسی و سماجی تنظیموں سے خواتین کو حمایت بھی مل رہی ہے اسی کڑی میں آج راشٹریہ لوکدل پارٹی کے ریاستی سکیٹری چودھری ارجن،چودھری دھیر سنگھ،راؤ قیصر سلیم اور شہر صدر سلیم خواجہ کی قیادت میں بڑی تعداد میں پارٹی کارکنان کے ساتھ دیوبند عیدگاہ میدان میںپہنچ کر خواتین کی تحریق کو پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا۔وہیں مشہور و معروف شاعر ندیم نیر کانپوری کی اہلیہ و عالمی شہرت یافتہ شاعرہ شائستہ ثناء نے دیوبند میں ایک نجی پروگرام میں شرکت کے بعد دیوبند کے عیدگاہ میدان میں پہنچ کرخواتین کے مظاہرے کو اپنی حمایت کا اعلان کیا۔

انہوں نے اپنے جزبات کا اظہار یہ شعر پڑھ کر کیا۔زمین اپنی ہے اور آسماں ہمارا ہے:ہم اس کے پھول ہیں یہ گلستاں ہمارا ہے:جو شہریت کا ثبوت ہم سے مانگتے ہیں:انہیں بتاؤ کے ہندوستاں ہمارا ہے۔متحدہ خواتین کمیٹی دیوبند کی جانب سے دیوبند کے عید گاہ میدان میں گزشتہ نو دن سے جاری غیر معینہ دھرنے میں خطاب کرتے ہوئے شائستہ ثنا ء نے کہا کہ 'سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر ایک غیر قانونی پیکج ہے جو بطور خاص غریبوں، پسماندہ طبقوں، دلتوں، لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے اور این پی آر ہی این سی آر کی بنیاد ہے۔انہوں نے کہا کہ این پی آر سنہ 2020 کی دوسری سہ ماہی میں شروع ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی اور خدشات پائے جاتے ہیںاور بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومت کے لیڈران زہر افشانی کر اقلیتی طبقہ کو مزیدخوف زدہ کرنے کا کام کر رہے ہیں،انہوںنے کہا کہ شہریت کے ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کی ملک گیر پیمانے پر مخالفت ہو رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آئین کے خلاف ہے اور آنے والے دنوں میں اس سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوں گے کیونکہ یہ ترمیم ملک کے سنہ 1955 کے شہریت کے قانون کی کئی شقوں میں کی گئی ہے جس کی وجہ سے شہریت کے مکمل قانون کی روح بدل گئی ہے اوراس ایکٹ کا چہرہ مسخ ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ترمیم شدہ ایکٹ آئین کی شق 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے اور مذاہب کے مابین امتیازی سلوک کرتا ہے، اسی لیے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی داخل کی گئی ہے۔شائستہ ثناء نے کشمیر کے حالات پر اپنی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اس شعر پر اپنے خطاب کا اختتام کیا:آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں،دنیا والے کہتے ہیں:جنت کے رہنے والے سہمے سہمے رہتے ہیں:باغوں کے نازک پھولوں پر بھی کانٹوں کی نگرانی ہے:جسم ہے ہندو مسلم لیکن جان تو ہندوستانی ہے۔

علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ایل ایل بی کی طالبہ و اسٹوڈینٹ لیڈر وردہ بیگ نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون تین پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر قانونی طور پر ملک آنے والی چھ مذہبی اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، سکھ، پارسی اور مسیحی) کو شہریت دینے کی بات کرتا ہے لیکن اس میں مسلمانوں کا نہ شامل کیا جانا جانبداری کا مظہر ہے اور یہ کہ تین ممالک کو ہی شامل کیا جانا منطقی نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ سی اے اے کو تنہا دیکھا جائے لیکن یہ تہنا نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ یہ 1955 کے شہریت کے قانون کا حصہ ہے جس میں این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) اور این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر کا بھی ذکر ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ قانون من مانا ہے۔ یہ آئین کے خلاف ہے اور یہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو متاثر کرتا ہے، یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ سیکولرازم آئین کا بنیادی حصہ ہے۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی طالبہ و اسٹوڈینٹ لیڈر مہوش عاصم نے خواتین کی تحریق کو اپنی حمایت اور متنازع قونین واپس نہ لئے جانے تک مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نئی معلومات میں شہریوں سے ان کا آدھار نمبر، ووٹر شناختی کارڈ، پین کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس نمبر، موبائل فون نمبر اور والدین کی پیدائش کی تاریخ اور جائے پیدائش بھی معلوم کی جائے گی جس کے تعلق سے لوگوں کی پرائیویسی کے متعلق بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب آپ سروے ٹیم کو اپنی معلومات دیں گے تو عین ممکن ہے کہ آپ کے نام میں کوئی ہجے کی غلطی ہو۔ ایسا بہت معاملے میں ممکن ہے کہ آپ کا جو آدھار کارڈ ہے یا جو پاسپورٹ ہے یا جو آپ کی سرٹیفیکیٹ ہے اس میں آپ کے نام کی ہجے ذرا مختلف ہو تو اس کی وجہ سے یہ ہوگا کہ جب آپ این پی آر میں اپنی تفصیلات دیں گے اور وہ تفصیلات جب مقامی رجسٹرار کے پاس جائیں گی اور وہ اسے جانچ رہے ہوں گے اور اگر انھیں یہ لگے گاکہ اس میں غلطی ہے یا اسے شبہ ہوگا تو وہ آپ کے نام کے ساتھ ایک ریمارک ڈالیں گے اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ 'ڈی' یعنی 'ڈاؤٹ فل ووٹر' (مشکوک ووٹر) کا ریمارک ڈالیں گیاور ایک بار جب حکومت کے پاس این پی آر کے آعداد و شمار ہوں گے اور جب وہ اسے این آر سی کے اعداد و شمار سے ملائیں گے تو ایک کلک سے تمام مشکوک ووٹر ایک طرف ہو جائیں گےجس کا اثر این آر سی پر پڑے گا۔

جمعیتہ علماء ہند کے قومی سکیٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی کی بھتیجی اور جمعیتہ علماء ہند کے ضلع سکیٹری ذہین احمد کی اہلیہ خدیجہ مدنی،دہلی کے درشٹی کالج کی طالبہ سید قمر جہاں،ڈاکٹر حنا انصاری اور فاطمہ نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت نے این آر سی لانے کے لیے بتدریج کام کیا ہے۔یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ واجپائی حکومت سنہ 2003 میں این آر سی پر قانون لائی تھی جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اس سے قبل ایک این پی آر ہوگا پھر لوکل رجسٹر فار سٹیزنز ہوگا اور پھر این آر سی آئے گا۔انھوں نے بتایا کہ پھر سنہ 2015 میں مودی کے پہلے دور حکومت میں پاسپورٹ کے قانون میں ترمیم کی گئی اور پھر اسی سال انھوں نے فارنرز ایکٹ میں ترمیم کی۔جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی عائشہ اور لبنی نے بتایا کہ سی اے اے میں جن چھ مذہبی اقلیتوں کا ذکر ہے انھیں ہی پاسپورٹ قانون میں تبدیلی لا کر پہلے ملک میں داخلے کی سطح پر چھوٹ فراہم کی گئی کہ وہ بغیر درست دستاویزات یا پاسپورٹ کے ملک میں داخل ہو سکتے ہیں اور اگر وہ ویزا کی مدت کے بعد بھی چاہیں تو رک سکتے ہیں۔پھر اس کے بعد فارنرز قانون میں ترمیم کرکے یہ سہولت فراہم کی گئی کہ آپ انھیں حراست میں نہیں لے سکتے گرفتار نہیں کر سکتے اور اب وہ ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں کہ یہ لوگ اب شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیںجس سے این سی آر میں شہری کی فہرست میں نہ آنے والے چھ مذاہب کے افراد تو شہریت کے نئے ترمیمی قانون کے تحت شہریت کی درخواست دینے کے لیے اہل ہوں گے لیکن مسلمان اس کے اہل نہیں ہوں گے کیونکہ ان چھ مذہبی برادریوں میں انھیں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad