ذاکر حسین الفلاح فرنٹ اکثر لوگوں میں کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ نہایت مفاد پرست اور ہمیشہ صرف دوسروں کو اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔میں سوچتا تھا کہ ایسا کیوں?کیوں لوگ اتنے زیادہ مفاد پرست ہوتے ہیں,کیوں صرف ہمیشہ اپنے فائدے کی سوچتے ہیں?کیوں دوسروں کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں?کیوں صرف اپنی لائف میں مگن رہتے ہیں?کیوں جب کسی کی مدد کرنے کی بات آتی ہے تواپنے لبوں پر خاموشی کا پہرا بٹھا لیتے ہیں?جب اپنا مطلب ہوتا ہے تو کس طرح سے شور برپا کرکے اپنےمطلب کی دنیا کی دہلیز تک پہنچتے ہیں۔
دیکھئے کڑوا تو ہے لیکن سننے کی ہمت جٹائیے,بات یہ ہے نہ کہ لوگ اس لئے مفاد کے حصار میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔کیونکہ اگر وہ لوگوں کی مدد کرنے لگ جائیں تو پھر انہیں چوس اورچوڑ کر ختم کر دیا جائے گا۔جو سماجی خدمات (سماجی فرائض)انجام دیتے ہیں۔ہمارا سماج انہیں کوئ مشین سمجھ کر اتنا رگڑتا اتنارگڑتا ہیکہ وہ بیچارا گھس کرایک ڈھانچے کا روپ دھارن کر لیتا ہے۔وہ اپنی زندگی کا بیش قیمتی وقت عوام کی فلاح اورسماج کیلئے وقف کرتا ہے اور ہم اسے تحفے میں کیا دیتے ہیں?تنقید,مذاق,کبھی کبھی اس سے بڑے شوق سے بڑی بد تمیزی سے بھی پیش آتے ہیں۔۔کچھ لوگ تلخ لہجے اور تنقید کی دہلیز عبور کر گالیوں سے بھی نوازتے ہیں۔ذرا سوچئے!اس بیچارے کی بھی اپنی ذندگی ہے,اس کے بھی جذبات ہیں,اس کے بھی احساسات ہیں,اس کے بھی سینے میں نازک سا دل دھڑکتا ہے,اس کی بھی خواہشات ہیں۔لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا?نہیں نہ,کیوں کریں گے,آپ کو کہاں فرصت ہے ,تنقید بھی کرنی ہوتی ہےاور ہر وقت یہ فکر بھی رہتی ہے کہ کب,کیسے اور کس طرح سے اپنا مطلب حل کیا جائے۔
ایک بات یہ بھی کہ اگر کوئ انسان لوگوں کی کی مدد کرتا ہے,لوگوں کا خیال کرتا ہے ,لوگوں کے جذبات اور خواہشات کا احترام کرتا ہے تو اس کے صبر کا قدم قدم پر امتحان لیا جاتا ہے۔ اس کا لوگ ادھار لیکر صرف اس لئے واپس نہیں لوٹاتے کہ ارے وہ کچھ نہیں کہے گا,بہت قاعدے کا ہے بیچارا۔اس کی بائک لے لیجئے,اس کی گاڑی لے لیجیے تیل مت ڈلوایئے,اس کا سامان لے لیجئے اور واپس مت کیجے ۔کیونکہ وہ بیچارہ تو روبوٹ ہے ۔وہ جذبات و احساسات سے عاری ہے۔جب چاہے فون کر لیں اور یہ پوچھے بغیر کہ بزی تو نہیں ہو اس کا آدھا گنھٹہ ایک گھنٹہ خراب کر دیں۔
اللہ کے واسطے تھوڑا سا تھوڑا سا خیال رکھئے ورنہ یہی حال رہا تو پھر کون سماج کی فکر کرے گا۔کون سب کے دکھ درد میں ساتھ دے گا ۔
پڑھنے کے بعد گالی اور شکایت کا پٹارہ کھولنے کے بجائے غورو فکر کیجئے گا۔شاید شرم تھوڑی سی کروٹ لے, بیدار ہواور بےشرمی کی قید سے خود کو آزاد کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں