تازہ ترین

ہفتہ، 4 جنوری، 2020

یوپی پولیس کی مدرسہ کے بچوں کیساتھ بدسلوکی، ہندوستان خاموش

یوپی پولس تشدد کے معاملے میں  گوانتا نامو بے جیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔سماجی کارکن کویتا کرشنن، پروفیسر اشوک سوین کا شدید ردعمل

اترپردیش(یواین اے نیوز4جنوری2020) اتر پردیش میں احتجاج کے دوران حراست میں لئے گئے معصوم بچوں کے ساتھ پولیس بد فعلی کی مرتکب ہونے لگی ہے اور اس کے باوجود خاموشی معنی خیز ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت اترپردیش میں حکومت کی جانب سے احتجاجیوں کی جانب سے نقصانات کی پابجائی ان کی جائیدادوں کی قرقی کے ذریعہ کی جا رہی ہے لیکن ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کاروائی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے جو دینی مدارس کے معصوم طلبہ کو حراست میں رکھتے ہوئے ان کے ساتھ بدفعلی کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ملک کی سرکردہ شخصیات کی جانب سے اس مسئلہ کو اٹھایا جا رہاہے کہ کس طرح سے اترپردیش کے مختلف اضلاع سے شکایات موصول ہورہی ہیں کہ پولیس کی جانب سے دینی مدارس کے طلبہ کے ساتھ بد فعلی کی جا رہی ہے ۔

 ملک کے سرکردہ انگریز ی روزنامہ ’’دی ٹیلیگراف ‘‘ میں ایک خبر شائع کی گئی جس میں 100 سے زائد دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو برہنہ کرتے ہوئے انہیں اذیتیں دی گئی اور انہیں بیت الخلاء جانے کی اجازت تک نہیں دی جا رہی ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ مظفر نگر میں واقع سادات ہاسٹل جو کہ ایک دارالیتامیٰ ہے اس میں اکثریت معصوم بچوں کی ہے اسے حراستی کیمپ میں تبدیل کیا جا چکا ہے اور پولیس کی جانب سے انہیں مسلسل ہراساں کیا جا رہاہے۔ مقامی سماجی کارکن سلمان سعید نے بتایا کہ مظفر نگر کے اس دارالیتامیٰ کی حالت انتہائی ناگفتہ ہوچکی ہے اور اس مدرسہ سادات کے استاذ مولانا اسد کو پولیس نے مخالف سی اے اے احتجاج میں حصہ لینے پر بے دردی سے پیٹا ہے ۔

 علاوہ ازیں مدرسہ کے طلبہ کے ساتھ بدفعلی کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں۔ اس مسئلہ کو ممتاز سماجی جہد کار محترمہ کویتا کرشنن نے سوشل میڈیا پر اٹھاتے ہوئے کہا کہ اترپردیش پولیس حیوانیت پر اتر آئی ہے اور اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔ انہو ںنے اس ٹوئیٹ میں اداکارہ پرینکا چوپڑہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات پر بھی کیا وہ خاموشی کا مظاہرہ کریں گی!پروفیسر اشوک سوائن یونیسکو چیئر نے حراست میں بے قصور مسلم بچوں کے ساتھ بدفعلی پر ہندوستان کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آخر ہندستان کو کیا ہوگیا ہے۔

 کیوں معصوم نوجوانوں کے ساتھ جنسی ہراسانی پر بھی خاموشی اختیار کی جار ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اترپردیش پولیس کی اس حیوانیت کو امریکی جیلوں گوانتانامو اور ابو غریب سے تعبیر کیا جانے لگا ہے جہاں امریکی افواج قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک رکھا کرتے تھے۔ اسی طرح اس واقعہ پر تبصرہ کرنے والوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہاہے کہ اترپردیش میں حراستی کیمپوں کی عملی مشق کی جا رہی ہے۔
بشکریہ سیاست نیوز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad