تازہ ترین

ہفتہ، 4 جنوری، 2020

گاؤں آج بھی بے خبر ہے ۔

بیس کروڑ مسلمانوں سے نفرت اور انھیں برباد کرنے کے چکر میں سو کروڑ ہندو بھائیوں کی زندگی اور انکے مستقبل کو برباد کیا جا رہا ہے۔۔ جہاں نفرت ہوگی وہاں امن نہیں ہوسکتا۔۔۔ اور جہاں امن نہیں ہوگا وہاں خوشحالی نہیں آسکتی یہ بات ہمیں گاؤں، دیہات کے ہر طبقے کے پاس جاکر سمجھانے کی ضرورت ہے۔۔این پی آر، این آر سی اور کیب کیا  کیا ہے اس کے نقصانات کیا ہیں اور یہ کس طرح ہر ہندوستانی چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم ہو اس پر اثر انداز ہوگا، اس قانون کے عمل میں کاغذات کو لیکر ہماری زندگی میں کیسی کیسی مشکلات آئیں گیں یہ بات عام عوام کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔۔پچھلے 22 دنوں سے ملک گیر پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے جامعہ ملیہ، علی گڑھ یونیورسٹی اور اتر پردیش میں حکومت کی طرف سے کس قدر بربریت کی گئی جو آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے درجنوں بے گناہ نوجوانوں کو گولی مار دی گئی۔

کئی طلباء کو شہید کیا گیا، درجنوں طلباء کے ہاتھ پیر لاٹھیوں سے توڑ دیئے گئے اور اس بے رحمی سے پیٹا گیا کہ وہ ہاتھ پیر سے معذور ہوگئے، اپنی آنکھیں کھو دیں۔۔۔ زرا سوچیئے اس ماں پر کیا گزری ہوگی جب اس کا بچہ یونیورسٹی سے ڈگری لیکر گھر پہونچنے کے بجائے اپنی پھوٹی ہوئی آنکھ لے کر پہونچا ہوگا ۔۔اس بوڑھے باپ پر کیا گزری ہوگی جب بیٹا سہارا بننے کے بجائے ٹانگوں سے معذور گھر پہونچا ہوگا،ذرا سوچئے اس گھر پر کیا گزری ہوگی جب خوشحال مستقبل کی آرزو لئے بیٹھے والدین بیٹے کی نوکری کی خبر سننے کے بجائے بیٹے کی موت کی خبر سنی ہوگی۔۔ خطہ اعظم گڑھ کو احتجاج کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ پورا ملک 22 دنوں سے سراپا احتجاج ہے۔۔ اس امتیازی قانون کے خلاف خطہ اعظم گڑھ کو دفعہ 144 کی ہتکڑی پہنا دی گئی۔۔ علاقے کی مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیات خاموش ہوگئیں اس خاموشی کی ایک وجہ کہیں نہ کہیں گستاخ رسول کے موقع پر ہونے والا احتجاج بھی ہے۔

اگر انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہیں ملی تو احتجاج کے دوسرے متبادل طریقے بھی ہیں جس کا ایک منظم لائحہ عمل سرکردہ شخصیات کی زیر نگرانی ترتیب دیا جانا چاہئے۔۔ جس سے لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا ہو   جلسے، جلوس، کانفرنس، مشاعرہ، ٹورنامنٹ، پروگرام کو ملتوی کرکے بھی اپنا احتجاج درج کرایا جا سکتا ہے۔۔ اگر ہم اتنا بھی نہ کرکے لہو و لعب میں مست رہے تو یہ بے حسی دیار شبلی کے شایان شان نہیں۔۔ اگر ہم نے کچھ نہیں کیا، کوئی مظاہرہ نہیں کیا،کوئی احتجاج نہیں کیا تو کم از کم ہمیں ان شہیدوں کی قربانیوں کا احساس تو ہونا چاہئے جنھوں نے اس ملک کے آئین کو بچانے کے لئے ہمارے بچوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لئے اپنی زندگی قربان کر دی۔ انھوں نے اپنا حق ادا کر دیا،  ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اپنا حق ادا کریں انکی قربانی کو رائیگاں نہ جانے دیں ظلم و جبر کے خلاف ہورہے اس احتجاج کو انجام تک  لے جائیں۔۔ اگر ہمیں احتجاج کی اجازت نہیں ملی تو ہم اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ دیہی علاقوں کے چھوٹے بڑے گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں کو جس میں ہندو مسلم سب شامل ہوں۔

 انھیں حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا جائے کیونکہ اب یہ موضوع صرف شہروں کا موضوع نہیں، یونیورسٹی اور کالج کا موضوع نہیں بلکہ گلی، محلوں کا موضوع بن چکا ہے۔۔ اس لئے اس کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے، شہروں میں رہنے والے اسکے مضر اثرات کو سمجھتے ہیں اس قانون کی حقیقت اور اسکے پیچھے کے منصوبے کو جانتے ہیں اس لئے وہ سڑکوں پر ہیں لیکن دیہات و قصبات میں رہنے والوں لوگوں کو اس کی حقیقت کا علم نہیں اس لئے انھیں سمجھانا ضروری ہے۔۔اس امتیازی غیر منصفانہ قانون کے بارے خطے کی ایک بڑی آبادی جانتی بھی نہیں کی یہ ہے کیا؟  اس کے نقصانات کیا ہیں؟ عام زندگی اس سے قدر متاثر ہوگی انھیں اس کا کوئی علم نہیں بس وہ اتنا جانتے ہیں کہ لوگ اس قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اگر ہمیں موقع ملا تو ہم بھی اس میں شامل ہونگے لیکن اس قانون کی خطر ناکی اور اسکی حقیقت سے ناواقف ہیں انھیں اس قانون سے واقف کرانا بھی ایک اہم کام ہے۔

 جو اہل علاقہ کے باشعور لوگوں کو کرنا چاہئے تاکہ حکومت کی کارستانیوں کا صحیح علم لوگوں کو ہوسکے کہ وہ ملک کی عوام کو نظر انداز کرکے  اپنی انا و تکبر میں اس ملک کو بربادی کے کس دلدل میں دھکیل رہے  ہیں۔حکومت اپنے پیمانے پر یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس قانون سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں داروغہ جی اور  کانسٹیبل آئے اور دس بیس لوگوں کو اکٹھا کیا سمجھایا کہ اس قانون سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کسی کی شہریت نہیں چھینی جائے گی اور لوگ مطمئن ہوگئے۔۔ لیکن ہم نے ان سے سوال نہیں کیا کہ کیا ہمیں اسکے لئے لائن میں کھڑے نہیں ہونا ہوگا؟  کیا کاغذات سہی کرانے کے لئے ہمیں دفتروں کے چکر نہیں کاٹنے ہونگے؟

 کون کون سے کاغذات شہریت ثابت کرنے کے کے لئے درکار ہونگے؟  اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جس کا جواب داروغہ جی دئیے بغیر اس قانون کو صحیح ثابت کرکے چلے جاتے ہیں اور ہم مطمئن ہو جاتے ہیں اگر ملک کی اکثریت، بڑے بڑے جج اور وکلاء، بڑے بڑے دانشور مصنف و مؤرخ اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں تو یہ بات قابل اطمینان نہیں ہمیں اسے سمجھنا اور سمجھانا ہوگا۔۔۔  اس لئے علاقے کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ دیہاتوں میں جائیں اور اس قانون کی اصلیت و حقیقت لوگوں کو سمجھائیں یہ ملک و آئین کے تحفظ میں ایک نہایت ہی مثبت اور مؤثر قدم ہوگا 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad