تازہ ترین

جمعہ، 3 جنوری، 2020

سال 2019 ء کا اختتام،لیکن ایک خوفناک دور کا آغاز !

شکیل منصور القاسمی


عیسوی سال 2019ء کا آخری سورج یوں تو ڈھل گیا؛ لیکن سال 2019ء میں عالمی افق پہ نسل پرستانہ برتری ، قابو کی حکمرانی ، مذہبی منافرت،نسل و قوم پرستی کے جنون وتعصب  کا جو سورج طلوع ہوچکا ہے وہ شاید دہائیوں تک نہ ڈھل سکے۔تاریخ کے اوراق میں اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا شاید یہ بدقسمت ترین سال مانا جائے گا جس میں مخصوص قوم پرستی اور نسلی منافر کوعروج حاصل ہوا ۔ نسل پرستی کے اسی عفریت نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد میں بدترین سفاکیت و درندگی کا ننگا ناچ کیا اور قریب پچاس بے قصور جانوں کو خاک وخون میں تڑپا دیا۔
ہمارے ملک ہندوستان میں نسل پرست نظریات اور مذہبی  منافرت کی جڑیں ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہورہی ہیں ۔ انسانی حقوق ، سیاسی اقدار اور بین مذہبی ہم آہنگی کے خلاف اشتعال انگیز بیانات اور ہیجان انگیز ریمارکس و تقاریر کو پذیرائی ملنے لگی ہے،کوئی بعید نہیں چند سالوں میں سیاسی پنڈتوں کا یہ محبوب وپُر کشش طریقہ بن جائے،ٹرمپ سے لیکر اس کے چٹے بٹّے و روحانی اولاد “سنگھیوں” تک نے اس زود اثر لیکن مفید ترین “رقیہ “ کو استعمال کرکے اسے برانڈیڈ بنادیا ہے،مذہبی جنون وتعصب کا یہ گھنائونا عفریت بڑا ہی طاقت ور اور پاور فل واقع ہوا ہے۔

ہر محکمے میں اس کی جلوہ نمائی  اور کنٹرول ہے ، جہاں وہ اپنا گہرا رنگ جما رکھا ہے ۔“سیاہ پوش”  (ججز /وکلاء ) بھی اس کی قیامت خیزیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔گہری نظر ان میں بھی سیاسی اثر ورسوخ ، دھونس ، اختیار ، دولت اور طاقت کے نشانات محسوس کرلیتی ہے۔تسلط وبالادستی کے اسی نظریئے نے ایوان عدل میں آویزاں “ میزان عدل “ سے بھی امیدِ عدل کو بری طرح متاثر کردیا ہے،نئے عیسوی سال کے آغاز پہ امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں کے ساتھ دنیا بھر میں جشن کا سماں ہے،آسمان پہ رنگ ونور کی برسات ہے۔آتش بازی کی جارہی ہے۔منچلے سڑکوں پہ نکل کے رقص کناں ہیں۔مرد وخواتین کاروں ،موٹر سائیکلوں اور  پیادہ پائوں سڑکوں پہ نکل آئے ہیں۔جشن کا ماحول ہے۔سال نو کی آمد پہ پورا شہر پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آواز سے دہل رہا ہے۔

لیکن آہ ! ہمارے ملک ہندوستان میں جراحتوں ، پامالیوں ، غموں اور مصیبتوں کی کیسی قیامت خیزیاں ہیں؟ایک خوفناک غلامی وجبر کے دور کا آغاز ہے ۔ہر سو فضا میں حکومتی جبر وقہر مسلط ہے۔نازی جرمن کے طرز عمل کا نیا تجربہ دہرائے جانے کو ہے،پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد کی ملکیت سے تمام ثبوتوں کے باوجود  مسلم اقلیت کو محروم کردیا گیا۔پارلیمان میں عددی برتری کے زعم میں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیئے جانے کا ظالمانہ قانون پاس کردیا گیا ہے ۔اس ظالمانہ قانون سے پچیس کڑور مسلمانوں کی شہریت خطرے میں ہے۔آزادی اظہار جیسے بنیادی حق پہ لاٹھیوں اور گولیوں کے پہرے ہیں ۔ اظہار رائے کی آزادی بھی پابند سلاسل ہے ۔نوے لاکھ کشمیری مسلمان : خواتین واطفال چھ  ماہ سے  بدترین فوجی محاصرے میں ہیں۔مادر وطن کے سیکولر آئین کے تانے بانے کو ادھیڑ بن کرنے کی حماقت کربیٹھنے  والے  آر ایس ایس کے چٹے بٹّے فاشزم ،تنگ نظر ،انتہا اور رجعیت پسند  حکمرانوں کے خلاف ہندوستان کی سڑکوں پہ عوامی سمندر امنڈ آیا ہے۔

 آزاد ہندوستان میں حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ کا یہ انوکھا تجربہ ہے۔یہاں کوئی جماعت ہے ، نہ کوئی لیڈر ۔ مذہبی تفریق ، سیاسی وفاداریوں ، بینروں اور قیادتوں کے بغیر ہی مرد وعورت ، بوڑھا وجوان ، پڑھا لکھا واَن پڑھ ، مزدور ،محنت کش وکیل ،ڈاکٹراور پروفیسر سڑکوں پہ نکل آئے ہیں اور ملک کے جمہوری تانے بانے کی حفاظت کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں،ملک ودستور کے تحفظ کے لئے کی جانے والی اس پاکیزہ جد وجہد اب تک درجنوں جانوں کا خراج  وصول کرچکی ، سینکڑوں گرفتاریاں ہوچکیں،ہزاروں لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔مظاہرین کی حمایت میں یورپی و امریکی ملکوں میں بھی لوگ سڑکوں پہ آچُکے ہیں اور انڈین ہائی کمیشنز کے سامنے مظاہرے شروع ہوچکے ہیں،نسل پرستانہ برتری کے اس نازی طرز کے خلاف ہمیں از  سر نو منظم ہونے ، اپنی رگوں میں تازہ خون تیزی سے متحرک کرنے اور جبر کے خوفنا ک دور کے  خلاف نتیجہ خیز جد وجہد  کرنے کی  ضرورت  ہے۔

کبر وغرور اور عددی برتری کے پندار کا غبارہ بس پہٹنے ہی والا ہے ۔ عوامی سمندر حکمرانوں کے سارے عزائم خس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گا،مظاہرہ وجد وجہد پوری قوت سے جاری رکھیں ، کمر  پوری طرح کس لیں ، کہیں سے بھی تعب وتھکن یاس وناامیدی کو قریب پہٹکنے تک نہ دیں۔کوششیں جاری رکھیں ! بہار کی نوید آنے کو  ہے ، امید کی کونپلیں پھوٹنے کو ہیں  ۔ قربانیاں جتنی بڑھیں گی منزل قریب ترین ہوتی جاتی ہے،انقلاب کا سورج طلوع ہوکر  رہے گا ، جبر واستبداد کی گھٹائیں چھٹ کے رہیں گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad