تازہ ترین

جمعرات، 14 دسمبر، 2017

سڈنی میں چند روز


سڈنی میں چند روز
 

یاسر ندیم الواجدی

دو ماہ پہلے سڈنی یونیورسٹی کی مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ایک رکن کا پیغام آیا کہ وہ ہرچھ ماہ یا سال میں طلبہ کے لیے ایک پروگرام کرتے ہیں جس کا مقصد یونیورسٹی کے طلبہ کو اسلامی علوم سے متعارف کرانا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ کے پروگرام کی "تھیم" حدیث اور علوم حدیث تھی۔ اس مناسبت سے ایسوسی ایشن کی دعوت پر سڈنی کا رخت سفر باندھا اور اور ایک طویل پرواز پر سوار ہوگیا۔ دن بہ دن ہونے والی ترقی نے فاصلے تقریباً ختم کردیے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جہاز کے مسافر کی خیریت منزل پر پہنچ کر ہی ملتی تھی۔ آج بہت سی ایر لائنز نے جہاز میں وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت دی ہوئی ہے جس سے چالیس ہزار فٹ کی بلندی سے بھی انسان اپنے اہل خانہ اور دوستوں سے رابطے میں رہتا ہے۔ سفر طویل تھا کچھ سونے میں اور کچھ انٹرنیٹ کے سہارے کٹ گیا۔ 

دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک بظاہر ایک جیسے ہی لگتے ہیں، گلوبلائزیشن نے مقامی معاشروں کا خاتمہ کردیا ہے اور ایک ہی معاشرے میں پوری دنیا کو پرودیا ہے۔ اس لیے امریکہ اور آسٹریلیا میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ البتہ ہر جگہ کچھ ممتاز تاریخی عمارتیں ضرور ہیں۔ جمعہ کے دن گیارہ بجے پہنچنا ہوا تو ارادہ یہ کیا کہ ہوٹل جانے سے پہلے کسی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرلی جائے۔ نماز سے فارغ ہوکر اپنے ہوٹل میں پہنچے اور کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بستر پر دراز ہوگئے۔ 

سڈنی پہنچنے کے ایک دن بعد وہاں کے مرکز امام احمد میں شمائل ترمذی کا درس تھا۔ یہ مرکز سلفی حضرات کا ہے لیکن یہ لوگ متشدد واقع نہیں ہوے ہیں، کیوں کہ اس دن بارہ ربیع الاول کی تاریخ تھی اور درس دینے والا ان کے منہج ومکتب فکر سے وابستہ نہیں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ غیر متعلقہ متشددین نے مرکز کے فیس بک پر یہ لکھ کر اعتراض داغا کہ آپ نے ایک "گمراہ" کو کیسے بلالیا۔ اس ادارے کے تمام طلبہ درس میں موجود تھے، جن کو شمائل نبوی پڑھانے کا موقع ملا۔ 

سڈنی کے ایک مضافاتی علاقے "روٹی ہلز" کی ایک عالیشان مسجد میں بھی جانا ہوا، یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کے تحت ایک عظیم الشان اسکول بھی چل رہا ہے جہاں بارہ سو طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں، یہ حضرات اسکول کا ایک دوسرا کیمپس بھی تعمیر کررہے ہیں تاکہ مخلوط تعلیم سے بچا جاسکے۔ مسجد اور اسکول دونوں ہی جگہ تقریر کا موقع ملا، طلبہ کے ساتھ سوال وجواب کا سلسلہ بھی رہا اور یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ طلبہ کے سوالات بڑوں کے سوالات سے بھی زیادہ پیچیدہ تھے۔ کسی عالم کے نہ ہونے کی وجہ سے ان طلبہ کے مسائل شاید وباید ہی حل ہوپاتے ہیں۔ میں نے اسکول والوں کو مشورہ دیا کہ کسی ایسے عالم دین کو بھی اسٹاف میں رکھیں جو طلبہ کے مزاج سے واقف ہو۔ انھوں نے علماء کی قلت کا روایتی رونا رویا اور کہا کہ آپ ہی امریکہ سے کسی عالم دین کو بھیج دیں۔ 

سڈنی ہی میں واقع ینائٹیڈ مسلمز آف آسٹریلیا میں بھی جانا ہوا، یہاں لبنانی نژاد مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اس ادارے کے ذمے دار شیخ شادی سلیمان کی دعوت پر یہاں مغرب کی نماز کے بعد خطاب تھا۔ شیخ شادی آسٹریلین امام ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں، نہایت با اخلاق، پر مزاح اور بہترین منتظم۔ ڈیڑھ کروڑ ڈالر کے صرفے سے ان کا یہ ادارہ تعمیر ہورہا ہے، جتنا ہوچکا ہے وہ کسی ترقی یافتہ عصری یونیورسٹی سے کم نہیں ہے۔ نوجوانوں کو نائٹ کلبوں سے بچانے کے لیے انھوں نے اسی ادارے میں ایک بہترین "جم" اور اسپورٹس سینٹر بھی کھولا ہے۔ یہاں نوجوان تفریح بھی کرتے ہیں، نماز بھی اپنے اوقات پر ادا کرتے ہیں اور دینی پروگراموں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اسلامی اداروں میں ان چیزوں کا تصور ہی نہیں ہے، اسی لیے ہماری مساجد پر ایسے قریب المرگ بوڑھوں کا قبضہ رہتا ہے جو اپنے گھروں کا "فرسٹریشن" مساجد میں آکر انڈیلنے میں بڑے مشاق واقع ہوتے ہیں۔ شیخ شادی سلیمان کا یہ قدم قابل تقلید ہے۔ 

اسپورٹس سینٹر دیکھ کر اپنے بچپن کے کرکٹ کا دور یاد آگیا، میں نے ایک نوجوان سے کہا کہ آسٹریلیا آکر کرکٹ نہ کھیلنا یہاں کے ساتھ نا انصافی ہے، اس نے فورا گاڑی ایک ایسے انڈور اسپورٹس سینٹر کی طرف موڑلی جہاں کرکٹ کی پریکٹس کی جاسکتی تھی۔ زندگی میں پہلی بار مشین کے ذریعے بالنگ کرواکر نیٹ پریکٹس کی اور اگلے دن یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ایک میچ بھی کھیلا۔ ہم نے طالب علمی کے زمانے دیوبند کے تقریباً ہر میدان میں کرکٹ کھیلا ہے، سولہ سال بعد بیٹ ہاتھ میں لیا تو ایسا لگا گویا کھویا ہوا خزانہ ہاتھ آگیا۔

نو اور دس دسمبر کو یونیورسٹی کے لیکچر ہال میں پروگرام تھا۔ پہلے دن ان طلبہ کو ڈائگرامز اور چارٹس کی مدد سے نخبة الفكر في مصطلح اهل الاثر پڑھائی۔ سات گھنٹے میں الحمد للہ کتاب کے اہم ترین مضامین پڑھاکر فارغ ہوا تو مسلسل کھڑے رہنے کی وجہ سے جسم کا احتجاج اپنے عروج پر تھا۔ اگلے دن پھر اسی ہال میں لیکچر تھا۔ ہمارے مشفق استاذ حضرت مولانا ابواللیث خیر آبادی استاذ جامعہ اسلامیہ عالمیہ ملیشیا کی ایک شہرہ آفاق کتاب "اتجاهات في دراسات السنة" کو بنیاد بناکر اسی موضوع پر لیکچر تھا، گوکہ چھ گھنٹے یہ لیکچر جاری رہا لیکن شاید جسم عادی ہوچکا تھا اس لیے زیادہ احتجاج نہیں کرپایا۔ 

آج چونکہ آخری دن تھا اس لیے ہم چند طلبہ کے ساتھ سڈنی کے مشہور اوپیرا ہاؤس کی سیر کو نکل گئے۔ یہ آسٹریلیا کی ایک مشہور عمارت ہے جو موسیقی کنسرٹ اور کانفرنسوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہاں سے فارغ ہوے رات کا کھانا کھایا تو ہوٹل پہنچتے پہنچتے نصف شب گزرچکی تھی، آسٹریلیا کے وقت کے اعتبار سے رات کے ساڑھے تین بجے ہمارا ہفتے واری شو سرجیکل اسٹرائیک بھی تھا، اس سے فارغ ہوے اور دو گھنٹے بعد واپسی کے لیے ایرپورٹ کی طرف نکل گئے۔ سفر سے پہلے اگر ایسا نظام الاوقات مل جائے تو سفر کس وقت کٹتا ہے الحمد للہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ 

اس دورے کی خاص بات یہ رہی کہ مجھے چند ایسے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا جو واقعی دوسروں کے لیے قابل تقلید ہیں۔ ان ترقی یافتہ ممالک کے بہت سے نوجوان دین کے تعلق سے اس قدر فکرمند ہوتے ہیں کہ اس کی نظیر دیگر ممالک میں ملنا مشکل ہے۔ چند نوجوان ایسے ملے جو اپنے والدین سے چھپ چھپا کر یونیورسٹی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف علماء سے درس نظامی کی کتب پڑھ رہے تھے، یہاں تک کہ وہ جلالین اور مشکاة کے درجات تک پہنچ چکے تھے، انھی میں سے دو نوجوانوں نے اصرار کیا کہ ہم آپ کے ہوٹل میں ہی آکر کچھ پڑھنا چاہتے ہیں، میں نے استفسار کیا تو انھوں نے امام ترمذی کی کتاب العلل پڑھنے کی خواہش ظاہر کی، ان کا شوق قابل دید تھا، الحمد للہ اس کتاب کا اکثر حصہ ان دونوں کو پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انھی جیسے طلبہ کی کوششوں سے یونیورسٹی نے باقاعدہ ان کو ایک مصلیٰ بھی فراہم کیا ہوا ہے۔ یہ ایسے نوجوان ہیں جن کو دیکھ کر بڑا رشک آیا کہ ناموافق حالات میں انھوں نے دین کو جانے نہ دیا۔ ایسے ہی نوجوان دراصل قوم کا سرمایہ ہیں۔ ورنہ ہمارے یہاں کس یونیورسٹی کے طلبہ میں علوم حدیث پڑھنے کا شوق ہے، اور کتنے طلبہ اپنی دینی تعلیم کے لیے فکرمند ہیں، بلکہ افسوس تو مدارس کے ان طلبہ کو دیکھ کر ہوتا ہے جو یونیورسٹی کے ماحول کو تو کیا بدلتے خود ہی اس کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad