تازہ ترین

جمعرات، 14 دسمبر، 2017

القدس اسرائیلی دارالحکومت یا فلسطینی؟


القدس اسرائیلی دارالحکومت یا فلسطینی؟
مسئلۃ القدس: ایک اور اہم تفکیری زاویہء نظر: 
تحریر۔سمیع اللہ خان 
جذبات میں آجانا، انسانی فطرت کا خاصہ ہے، لیکن جذبات میں زندگی گذارنا، خلاف عقل و دانش ہے۔ 
القدس اسرائیل کا دارالحکومت ہونا چاہیے، ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد، ہر مسلم ملک، اور ہر مسلم دل میں درد اٹھا ہے، اور یہ ہونا بھی چاہیے، یہ ہمارے ایمان کی پہچان اور ایمانی زندگی کی اکھڑتی سانسیں ہیں ۔
اب تک راقم سطور بھی جذبات میں ہی تھا، اور جذبات کو سامان فراہم کرنے کے لیے پوری امت کے ساتھ ہے، لیکن مستقل جذباتیت ہی میں غرق رہنا، حماقت ہوگی آئیے ایک اور زاویے سے مسئلۃ القدس کے سلسلے میں اپنا احتساب کریں، ذرا سوچیں،
1895 میں تھیوڈور ہرٹزل (اسرائیل کا تخیل پیش کرنے والا ہنگری نژاد یہودی صحافی) نے آسٹریا کی راجدھانی باسل میں اسرائیل جیسی ایک مملکت کا تخیل پیش کیا تھا،
اس کے بعد یہودیوں کی انفرادی ہجرت شروع ہوئی، اور پیسے خرچ کرکے یہودیوں کو وہاں قانونی طور پر زمینیں خرید کر بسانے کا سلسلہ شروع ہوا، 
اس کے بعد 1947 میں اسرائیل کا اعلان کیا گیا، 
اس کے بعد اسرائیل نے یہودی نوجوانوں کو اعلی تعلیم اور بہترین تنظیمی صلاحیت سے آراستہ کیا، اس درمیان معمولی کوششوں کے سوا فلسطینیوں کی زمین ہڑپنے جیسی کوئی سرکاری کارروائی انجام نہیں پائی، صرف طاقت پیدا کرنے پر زور دیا گیا، 
اس کے بعد 1967 میں جنگی شعلے بھڑکا کر، فلسطینی علاقوں کو ہڑپنے کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا، اور دو ہزارے کے اختتام تک آہستہ آہستہ تقریباً نوے فیصد /٪ ۹۰‌ فلسطینی علاقوں کو ہڑپ کر لیا گیا،
اس کے بعد 1985 سے اسرائیل میں سیاحت کو فروغ دے کر، اور دنیا بھر میں اسرائیل کے بہترین پراڈکٹس اور نت نئے مصنوعات کی بھرپور سپلائی کرکے، اسطرح مضبوط معاشی پلیٹ فارم سے یہودیوں نے دنیا کے بیشتر ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کئے۔
اور 2017 میں دنیا کے سب سے بڑے ملک امریکہ کے ذریعے اپنی قانونی حیثیت پر مہر ثبت کروا لیا گیا، بس معاملہ اتنا رہ گیا ہے کہ امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) ڈونالڈ ٹرمپ کی رائے کو منظوری دے دے، اس کے بعد فلسطین کی جگہ ہتھیانے والوں کا کام ختم، 
اس زمین کے قانونی مالک وہ ہوگئے. جسے تسلیم کرنا ہے، کرے، جسے نہیں تسلیم کرنا ہے نہ کرے! ۔
اب ذرا دیکھیے، 1895 پھر انفرادی ہجرت، پھر قیام اسرائیل، پھر فلسطین کی زمین ہتھیانے کی کوششیں، پھر جنگیں، پھر دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے، کے اس پورے عمل میں 122 سال کے عرصے میں یہود کتنے مستقل رہے ہیں؟
کیا اس پورے عرصے میں ان کے درمیان اختلاف رائے نہیں ہوا ہوگا؟ 
کیا اس پورے عرصے میں ان کے اوپر چیلنجز نہیں آئے ہوں گے؟ 
کیا اس پورے عرصے میں ان کے درمیان قدامت پسند اور جدت پسند کے جھگڑے نہیں اٹھے ہوں گے؟ 
لیکن انہوں نے اپنا ایک قومی نصب العین تیار کیا، اور اس کے حصول میں جٹ گئے! 
اور ہماری زمین پر ہمارے سینے پر دال موند کے دکھا دیا۔
ہم نے منظمة التعاون الإسلامي اجلاس استنبول کے حالات کا بھی جائزہ لیا، بلاشبہ اس پرآشوب اور سخت مشکل موڑ پر یہ کوششیں بھی باب عزیمت ہیں، لیکن صاف طورپر محسوس ہورہا تھا کہ اسوقت پوری اسلامی دنیا کے پاس مجموعی طور پر برابری کی لڑائی لڑنے کا کوئی بھی لائحہ عمل نہیں ہے او آئی سی اجلاس کی تقریریں کانوں کو ضرور بھلی معلوم ہوں گی ، لیکن گہرائی سے صورتحال کا جائزہ لیں اور اسلامی ممالک کے ان جرأت مند اور غیرت مند سربراہان کی سرگرمیاں دیکھیں، لاچاریت صاف ظاہر ہوگی ۔
یہاں، مجھے اتنا کہنا ہے، کہ جب تک ہم اپنے دائرے سے باہر قدم نکال کر نہیں سوچتے، اور اپنی صفوں میں، اپنے سماج میں ہی بنیادی تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہوتے، شاید کسی دور رس تبدیلی کے خواب دیکھنا، شاید بے محل ہوگا، اور یہ بنیادی تبدیلی ہم اور آپ کو پیدا کرنا ہے، بڑے میاں لوگوں سے یہ امید کرنا کہ وہ بدست خود اپنی جڑیں کھود کر ہمیں مواقع فراہم کرینگے یہ فضول امید ہے، اور زیادتی بھی ہے، کہ، آپ اپنی قوم کا مجموعی شعور جاننے کے باوجود ان سے برعکس کی امید رکھتےہیں جبکہ ان کی پوری زندگیاں ایک مخصوص پالیسی کے تحت گذری ہیں ۔
کئی احباب اصرار کرتےہیں کہ اسرائیلی بائیکاٹ مہم چلائی جائے، بالکل چلائی جانی چاہیے، دشمن کی کمر توڑنے کے لیے اس کی معیشت پر ضرب لگانا ایک مؤثر قدم ہوگا، ہم نے بارہا ایسی مہمات چلائی ہیں، لیکن سچ پوچھیے تو اب ایسی آواز بلند کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے، کیونکہ جب کھلے دل سے جائزہ لیتے ہیں، تو یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے، کہ ہماری زندگی کا ۹۰ فیصد سے زیادہ حصہ اسرائیلی مصنوعات پر منحصر ہوچکا ہے، روزمرہ کی اشیاء سے لیکر نقل و حمل کے ذرائع تک اکثریت کا سرا اسرائیلی معیشت سے جا لگتا ہے، ہم بائیکاٹ کی مہم کس منہ سے چلائیں جبکہ، ان پروڈکٹس کے بالمقابل کسی ایک پروڈکٹ کا بھی متبادل ہم آج تک پیش نہیں کرسکے ہیں! کچھ کوششیں بھی اگر کبھی ہوئی ہیں تو ہماری تنزل پذیر قوم کی آپسی چشمک کی نذر ہوگئی ہیں، معیشت کے باب میں ہمارا مجموعی معیار ایسا ہیکہ کچھ کامیاب تاجر ہیں بھی تو، وہ اپنی شناخت چھپاتے ہیں! کیا اس موقع سے ہم اس جانب مضبوط، اور مؤثر لائحہ عمل کے ساتھ پیش قدمی نہیں کرسکتے؟ ہماری قوم میں آج بھی آسودہ حال، خوشحال افراد کی کمی نہیں ہے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اب وفود کی صورت میں مذاکرات کر کرکے انہیں اس سمت ٹھوس اقدامات کے لیے آگے لانے کی کوشش کریں، تاکہ ہماری بائیکاٹ مہم اپنے متبادل کے ساتھ کامیاب ہو ۔
مغربی دنیا جیسی تکنیکی و تفکیری یلغار کررہی ہے ان سے بدکنے اور مشتعل ہونے کے بجائے ان کا سنجیدہ و مستقل مزاجی سے استقبال کرنا سیکھیں، جب تک ان کو سمجھ کر ان کی سطح پر مذاکرات نہیں ہوں گے تب تک دعوتی فرائض بھی ادا نہیں ہوں گے، اس کے لیے آپسی گروہی اختلافات سے اوپر اٹھنا ہوگا، اسلامی وسعت کو اپنے ادارتی و ارادتی 
حلقوں میں سمیٹ کر آپسی خانہ جنگیاں بند کریں، 
اسوقت مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد چاہیے، جو تبدیلی کے خلاف بولنے والوں کا اپنی تحریروں اور اپنے منصوبوں سے ناطقہ بند کردے، اس طرح کے تبدیلی سے بدکنے والوں کو ہر وقت اپنے سر میں درد محسوس ہو. 
تھیوڈور ہرٹزل نے اسرائیل کے قیام سے 52 برس پہلے باسل میں منعقدہ پہلی کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اگر میں آج کہوں، کہ کم از کم اگلے پانچ سال، اور زیادہ سے زیادہ اگلے پچاس سالوں کے اندر میں فلسطین میں ایک یہودی ریاست کو آج (1895 میں) دیکھ رہا ہوں، تو آپ (یہودی لوگ) مجھے پاگل سمجھیں گے، لیکن میں پھر بھی آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہودی ریاست کا قیام کم از کم اگلے پانچ سالوں میں اور زیادہ سے زیادہ اگلے پچاس سالوں میں ہوجائے گا، اس لئے ابھی سے اس ریاست کے خواب دیکھنا شروع کر دیجیے. 
اس لئے جب تک نوجوانوں میں تعمیری عزائم سے لبریز خواب نہیں ہوں گے، اور وہ دوسرے مسلمانوں کو خواب نہیں دکھا سکیں گے، تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
اس لئے خواب دیکھیے، مستقل مزاجی پیدا کیجیے، دنیا سے اچھے تعلقات بنائیے، تکلیف کے باوجود مسکرانا سیکھیے، اور اپنی صلاحیتوں کو مسلسل نکھارتے رہیے، (صرف تقریری صلاحیت نہیں)، اس کے بعد دنیا میں چھانے کا سوچیں، ورنہ صرف جذبات میں بہنے سے القدس نہیں بچے گا، جو لوگ فلسطین ہڑپ کر گئے ہیں، القدس انہیں ہڑپ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

؞ سمیع اللّٰہ خان ؞
جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad