تازہ ترین

جمعرات، 14 دسمبر، 2017

مئو کے عربی شعراء پر ایک نظر


مئو کے عربی شعراء پر ایک نظر

عبدالمغیث،ریسرچ اسکالر، شعبئہ عربی، بنارس ہندو یونیورسٹی

Image may contain: one or more people and beard

مئو ہندستان کا ایک ضلع ہے جو اتر پردیش میں واقع ہے۔ضلع کے شمالی سرحد پر گھاگھرا ندی اور مئو شہرکے درمیان سے دریائے ٹونس گزرتی ہے۔ترکی زبان میں لفظ مئو کا معنی چھائونی یا پڑائو کے ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ پہلے کبھی یہاں ایک نٹ رہا کرتا تھاجو یہاں کے لوگوں پر ظلم ڈھاتا اور تنگ کرتا تھا۔شہر کی ایک عظیم شخصیت ملک طاہربابا نے اسکی ظالمانہ کرتوتوں کی وجہ سے اس کوشہر چھوڑنے کوکہا اور نٹ اس شرط پر راضی ہوا کہ کشتی کامقابلہ ہو ،جو ہار جائے شہر چھوڑ دے۔ملک طاہر بابا جیت گئے اور نٹ کو شہر چھوڑناپڑا۔اسطرح سے شہر کا نام مئو نٹ بھنجن (چھائونی جہاںنٹ کا بھنجن یعنی ناش ہوا) پڑاجو آگے چل کر مئو ناتھ بھنجن ہو گیا۔
مئوشہر علمی،تاریخی اور تجارتی تمام صفات کا حامل ہے۔ اس شہر میں جو نامور علماء پیدا ہوئے انہوں نے علم دین کا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ عربی ادب و شعر کے سلسلے میں بھی بیش بہار خدمات انجام دیں ہیںاورسرزمین کا نام روشن کیا ہے۔مئو کے چند عربی شعراء کا اجمالی طورسے ذیل میںذکر کیا جا رہاہے:۔ 
انوار الحق مئویؒ:۔ انوارالحق بن عبدالغفار مئوی ۱۳۱۳ھ میں قصبہ مئومیں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش علمی گھرانہ میں ہوئی۔والدماجد مولانا عبدالغفار مئوی کا شمار سربرآوردہ علماء میں ہوتا یھا۔اس کا اثرمولانا انوارالحق پر پڑا اور بہت جلد ابتدائی تعلیم سے فراغت ہو گئی اور مئو کی مشہور درسگاہ دارالعلوم میں داخل ہو گئے۔یہاں سے مختلف علوم و فنون کی تحصیل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں انور شاہ کشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی اوردوسرے اساتذہ سے علم حدیث کی تکمیل کی۔فراغت کے بعد مدرسہ عزیزیہ بہار میں استاذ ادب کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیں۔بالآخرمدرسہ عزیزیہ میں ہی بیماری کے شکار ہوئے اور مرض کی شدت کے سبب عین جوانی میں ہی ۱۳۴۱ھ میں داعئی اجل کو لبیک کہا۔
مولانا انوارالحق مرحوم بڑے ذی صلاحیت عالم تھے ، قوت حافظہ نہایت قوی تھا، عربی اور فارسی کے اشعار برجستہ کہتے تھے، تصنیف و تالیف سے بھی ذوق تھا۔ان کا۱۸اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ ملتا ہے جو انہوں نے اپنے والد مولانا عبد الغفار مئوی کی وفات پر کہا تھا،اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
لقد غاب عنی ابی دامانی وشیخی و استاذ اھل الزمان
فقیہ جلیل ادیب طبیب تسابق اقرانہ فی الرھان
وکل ابن انثی وان عاش دھرا لکنہ لا ابالک فانی
ابی یا ابی قد رثیت ضریحا بہ روضۃ من ریاض الجنان
حبیب الرحمن الاعظمیؒ:۔ مولانا ابوالمآثر حبیب الرحمن الاعظمی کاشمار فقہ،تفسیر اور حدیث کے عظیم علماء میں ہوتا ہے۔آپ کی پیدائش یوپی کے قصبہ مئو میں ۱۹۰۱ء میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم اپنے والدماجد سے حاصل کی اور فقہ و حدیث کی اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔۱۹۲۰ء میں علوم اسلامیہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد انورشاہ کشیری، شبیر احمد عثمانی،مولانا کریم بخش سنبھلی جیسے عظیم علماء سے حدیث اور تفسیر میں اجازت حاصل کی۔انہوں نے اپنی تدرسی خدمات کی شروعات دارالعلوم مئو سے کی پھر جامعہ مظہرالعلوم بنارس چلے گئے۔۱۹۴۹ھ میں مفتاح العلوم مئو میں استاذ حدیث و تفسیر کے لیے بلائے گئے اور۲۲ سال تک حدیث کی تدریسی خدمات انجام دیں۔لیکن کچھ سبب کی بناء پر مفتاح العلوم چھوڑ دیااورالمعہد العالی کے نام سے حدیث کی تحقیق کے لیے ریسرچ سینٹر قائم کیا۔ایک مدرسہ بھی مرقاۃ العلوم کے نام سے قائم کیااور آخری عمر تک اس مدرسہ میں معلم حدیث کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔آج بھی یہ مدرسہ اپنی علمی روشنی بکھیر رہا ہے۔ آپ کی وفات ۱۹۹۲ء میں ہوئی۔
مولانا عربی،اردو، فارسی تینوں زبانوں میں اشعار کہتے تھے اورمولانا کی بہت سی تخلیقات موجودہیں۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کے زمانہ سے ہی عربی اشعار کہنا شروع کر دیا تھا۔ جب وہ پہلی مرتبہ دیوبند تشریف لے گئے اس وقت انہوں نے ایک اپنے استاذمولانا فیض الحسن فیضی کو عربی میں لکھا اور اس میں یہ تین اشعار ذکر فرمائے:۔
فلیت لایام اللقاء معادۃ علی والفیت الاحبۃ فی جنبی
کاش ملاقات کے دن میرے اوپر پھر لوٹ کر آتے اور پیاروں کو میں اپنے پہلو میں پاتا۔
ولا سی ایاما الاقی بھا حبا براء سوی نقض العھود من الذنب
اور خاص کر وہ ایام جن میں میری ایسے محبوب سے ملاقات ہوتی جس کا عہد شکنی کے سوا کوئی گناہ نہیں۔
حدیث حبیبی فی الفواد لہ برد و رویتہ عن حلو عیشتنا تنبی
میرے محبوب کی گفتگو دل کی ٹھنڈک ہوتی ہے اور اس کی دید بہتر زندگی کی خبر دیتی ہے۔
یہ اشعار اس وقت کے ہیں جب ان کی عمر ۱۹ سال کی تھی۔ اس وقت مولانا نے ۱۳ اشعار پرمشتمل ایک اور نظم لکھی تھی جس کا عنوان "تھنئۃ العید"ہے۔جو ممکن ہے کہ درج بالا اشعار سے بھی پہلے کے ہوں ۔اس نطم کے چند اشعار درج ذیل ہیں:۔
ھنبیئالکم عید اظل علیکم ھنیئا نجوم السعد اذ ذاک طلع
تم کو عید کی آمد مبارک ہو ! تم کو سعد کے طلوع ہونے والے ستارے مبارک ہوں!
فجاء بافراح و بھجۃ انفس یفرج عن حبی الھموم و یقلع
عید اپنے ساتھ خوشی اور نفس کی تازگی لائی ،جو میرے محبوب سے غموں کو دور کرتی ہے۔
اس نطم کے خاتمہ پرلکھا ہے ـ کتبتہ الی صدیقی المولوی فیض الحسن و انا ذاک متعلم فی دارالعلوم الدیوبندیۃ و سنی تسع عشرۃ سنۃ " یعنی یہ نظم میں نے اپنے دوست مولوی فیض الحسن کو اس وقت لکھی جب میں دارالعلوم دیوبند میں متعلم تھا اور میرا سن ۱۹ برس تھا۔ اس کے علاوہ بھی مولانا نے بہت سے مرثیے اپنے اساتذہ اور دیگر اصحاب کی وفات پر کہے ہیں۔
عبداللہ شائق ؒ:۔عبداللہ شائق بن محمد اسماعیل بن حاجی عبدالقادر بن عبداللہ مئوی ۱۰ ذی الحجہ ۱۳۰۹ ھ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علوم عربیہ کی متداولہ کی تحصیل مختلف اساتذہ سے کی جن میں مولانا عبدالرشید کانپوری ،مولانا شاہ عین الحق پھلواری، مولانا حافظ عبد المنان اور مولانا محمد فاروق چریاکوٹی بڑی مقبولیت کے حامل ہیں۔مولانا نے مسجد چنیاں والی لاہور کے مدرسہ میں تدریسی مشغلہ کی ابتداء کی۔۱۳۳۳ھ میں اپنے آبائی وطن قصبہ مئو کے مدرسہ فیض عام میں استاذ مقرر ہوئے اور یہاں تقریبا ۱۳۵۶ھ تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔مولانا نے ۱۳۷۴ھ میں دارالحدیث کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا اور زندگی کے آخری لمحات تک اس مدرسہ کی تنظیم و ترقی میں لگے رہے، چنانچہ مدرسہ بہت جلد ہی ترقی پر پہنچ گیااور ممتاز مدرسوں کی فہرست میں شمار ہونے لگا۔مولانا کی وفات ۱۳۹۴ ھ میں ہوئی۔
مولانا اچھے شاعر تھے اور نظم کے جملہ اصناف پر قادر تھے۔آپ کا تخلص ـ شائق تھا۔آپ اردو، عربی، فارسی رتینوں زبان میں شعر کہتے تھے۔مولانا نے ایک قصیدہ ابوالقاسم سیف بنارسی کی وفات پر کہا تھا جسکے چند اشعار درج ذیل ہیں:۔
جرت العیون بماء ھا وتتابعت حتی اضمحل سعادھا ذوالقار
صلی الالٰہ علی الصفی محمد وسقی الغوادی قبرہ و الساری
قد کان من اعضاء ملۃ احد وحماۃ دین القاھر الجبار
مولانا کا ۱۵ اشعار پر مشتمل ایک اور قصیدہ ملتا ہے جو انہوں سامرودی نام کے شخص کی ہجو میں لکھا تھا، سامرودی نے ثنائوللہ نامی شخص کو برا بھلا کہا تھا۔اس قصیدہ کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں:۔
یقولون ان السامرودی ماھر فقلت ا فی التلبلیس ام فی الشناء ۃ
یسب ثناء اللہ من غیر ریبۃ کسب لئیم مفسد فی البطالۃ
یکفرہ و اللہ یعلم انہ رسول رسول اللہ طود الھدایۃ
عبدالرحمن آزاد ؒ:۔والد کا نام عبدالرزاق ہے۔آپ کی ولادت قصبہ مئو میں ۱۲۹۵ھ میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم مقامی اساتذہ سے حاصل کی ۔اس کے بعد چشمہ رحمت غازیپور میں داخل ہوئے اور مولانا فاروق چریاکوٹی، مولانا عبداللہ غازیپوری اور مولاناعبدالرحمن غازیپوری سے درس نظامیہ کے اکثرحصہ کی تحصیل کی۔بعد ازاں جامع العلوم کانپور چلے گئے اور وہاں حکیمالامت مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمد حسن کانپوری وغیرہ سے نصاب کی بقیہ کتابیں پڑھیں ۔حدیث کی سند اپنے زمانہ کے مشہور محدث مولانا سید نظیر حسین دہلوی سے حاصل کی۔فراغتب کے بعد۱۳۱۴ھ میں دربھنگہ کے کسی مدرسہ میں استاذ مقرر ہوئے۔اس کے بعد اسنسول اور کلکتہ میں درس و تدریس کی خدمت انجام دی۔۱۳۵۷ھ میں مئو میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
مولانا کو شعر و ادب میں کامل درک حاصل تھااور شعر گوئی کا ملکہ آپ میں بطریق احسن موجود تھا۔آپ کے قصیدہ بانت سعاد کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔آپ نے ۱۳۳۷ھ میں ایک قصیدہ حافظ عبدالمنان کی وفات پر لکھا تھاجسکے چند اشعار درج ذیل ہیں:۔
الناس قد فقد و اذکیا فاضلا متفرد الامثال و الاقران
قد کان بحرا فی العلوم اصولھا و فروعھا و مدرسا لا ثانی
اثنی علیہ الناس خیرا کلھم و اولٰئک الاشھاد للرحن
محمد علی ابوالمکارمؒ:۔آپ کے والد کا نام فیض اللہ تھااور ولادت۱۳۰۸ھ قصبہ مئو میں ہوئی۔ابتدائی کتب ملا حسام الدین مئوی سے پڑھی،بعد ازاں چشمہ رحمت میں داخلہ لیا اور مولانا حافظ عبداللہ غازیپوری اور دیگر اساتذہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔حدیث کی تعلیم مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے حاصل کی۔علوم عربیہ کی تکمیل کے بعد حکیم سید عبدالحفیظ دہلوی سے طب و حکمت کی تحصیل کی۔۷ رجب ۱۳۵۲ ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔
مولانا اپنے زمانہ کے عظیم عربی شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں۔آپ میں شعر کہنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔مولانا نے سبع معلقات پر اپنی لغوی و معنوی تحقیقی تعلیقات بھی لگائی ہے۔آپ کی شاعری کا ایک نمونہ درج ذیل سطر میں پیش کیا جا رہا ہے:۔
کتاب لو تراہ بعین فھم رایت الحق فیھا بلا حجاب
کتاب ناطق بلسان حال بانی کامل فی کل باب
وانی غالب فی کل بحث باسکات المخالف بالجواب



مصادر و مراجع:۔
۱۔ اعظمی، حبیب الرحمن، تذکرہ علماء اعظم گڑھ، سہارنپور، مرکز دعوت و تحقیق، ۲۰۱۲، پرنٹ
۲۔ الاعظمی، نثار احمد، ریحانۃالشعر و الشعرائ، لکھنو، کاکوری آفس پریس، ۲۰۱۰، پرنٹ
۳۔ ابوالحسن، ضیاء الایمان، کانپور، دارالتعلیم و الصنعت، پرنٹ
۴۔ الاعظمی، ڈاکٹر مسعود احمد، حیات ابوالماثر، مئو، المجمع العلمی ، ۲۰۰۰، پرنٹ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad