اسلامک فقہ اکیڈمی(انڈیا) کا ۲۷واں فقہی سمینار
’’اسلامک فقہ اکیڈمی(انڈیا) ایک ایسا ادارہ اور تنظیم ہے جس میں ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص علماء اواور دینی غیرت و فکر رکھنے والے مسلمانوں کو فخر اور فخر سے زیادہ شکر کرنے کا حق حاصل ہے، یہ ایک خالص تعمیری اور فکری علمی و فقہی تنظیم اور اجتماعیت جس میں ملک کے ممتاز صحیح العقیدہ، صحیح الفکر اور وسیع العلم علماء اور کارکن شامل ہیں‘‘۔یہ الفاظ بیسویں صدی کے ممتاز عالم دین مفکرو محقق حضرت مولانا سید علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں، یہ سچ ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے جہاں ایک طرف ہندوستانی علما میں علمی بیداری اور نئے مسائل کے حل کا شعور پیدا کیا وہیں دوسری طرف نوجوان فضلا کی علمی و فکری تربیت کی اور امت کو درپیش مسائل کے حل کے طریقے اور وسائل سے واقف کرایا، اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے اکیڈمی نے اب تک ۲۶فقہی سمینار ملک کے مختلف حصوں میں کرائے، فقہی سمیناروں کے علاوہ تیس دوسرے علمی و فکری سمینار بھی کرائے جن میں وقت کے اہم موضوعات و مسائل کو زیر بحث لایاگیا تاکہ ملک کے مسلمانوں کو جدید مسائل جیسے معاشی ،سیاسی اور تعلیمی صورتحال سے واقف کرایاجائے، اسی طرح اکیڈمی نے تیس علمی و تربیتی ورکشاپ کرائے جس میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ موضوع سے متعلق پوری معلومات فراہم کی جائے،علما اور خصوصا نوجوان علما کے سامنے بحث و تحقیق کے نئے گوشوں کو واضح کیاجائے۔بانی اکیڈمی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحبؒ اور ان کے معاون علما نے اکیڈمی کے قیام کے وقت ہی اس کے اغراض و مقاصد طے کردیئے تھے جن میں جدید عہد میں پیدا ہونے والے مسائل کا اجتماعی تحقیق کے ذریعہ حل تلاش کرنا،جدید پیش آمدہ مسائل میں علماء اور دینی اداروں سے تحریریں اور فتاوی حاصل کر کے عام مسلمانوں کو باخبر کرنا،نئے باصلاحیت علما کی صلاحیت کو علمی وتحقیقی رخ دینا،مختلف مسالک کے علمی و فقہی ذخیرہ سے استفادہ کا رجحان پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔اسی کے پیش نظراسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کا۲۷واں فقہی سمینار ملک کی معروف ریاست مہاراشٹرا کے مشہور تجارتی شہر عروس البلاد ممبئی میں مؤرخہ۲۵تا۲۷نومبر۲۱۰۷ء کو منعقد ہورہا ہے، اس سمینار میں اندرون ملک سے علما اور ماہرین علوم عصریہ کی ایک بڑی تعداد کے شریک ہونے کی توقع ہے، اکیڈمی نے اس سمینار میں غور و فکر کے لئے چار اہم موضوعات منتخب کئے ہیں،جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔عصری تعلیمی اداروں سے متعلق شرعی مسائل۲۔حیوانات کے حقوق اور ان کے احکام۳۔مکان کی خرید و فروخت سے متعلق نئے مسائل۴۔طلاق اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل۱۔عصری تعلیمی اداروں سے متعلق شرعی مسائل:اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن و حدیث اور احکام شرعیہ کی تعلیم کوتمام دوسرے علوم پر فضیلت حاصل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں جن علوم کی ضرورت پیش آتی ہے وہ سب علم نافع میں شامل ہیں اور ضروری ہے کہ مسلمان اپنی دینی تعلق کو قائم رکھتے ہوئے ان علوم میں آگے بڑھیں۔اس موضوع کے تحت :ایسے اسکول قائم کرنے کا کیا حکم ہے جن کے اندر اسلامی ماحول میں مطلوبہ معیار کے تعلیم کے مطابق عصری علوم پڑھائے جائیں؟ ایسے ادارے اگر مسلمانوں کے زیر انتظام ہوں تو نصاب تعلیم میں کن امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے؟اسی طرح سرکاری تعلیمی اداروں جہاں بچے بھاری فیس ادا نہیں کرسکتے یاعیسائی مشنری یا سنگھ پریوار کے تحت چلنے والے ادارے جو مسلم محلوں کے قریب ہوتے ہیں کیا ان اسکولوں میں مسلمانوں کے لئے اپنے بچوں کو تعلیم دلانا جائز ہوگا؟عصری درسگاہوں کے اندر مخلوط تعلیم کا نظام ہوتا ہے، لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کلاسوں میں پڑھتے ہیں تو کیا ان مخلوط تعلیمی اداروں کا نظام درست قراردیاجاسکتا ہے؟اسی طرح اسکولی یونیفارم، داخلہ فیس، ماہانی فیس، ٹرم فیس، ٹرانسپورٹ فیس، امتحان فیس وغیرہ کے نام سے مختلف فیسیں لی جاتی ہیں تو کیا تعلیم کو خدمت کے بجائے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نفع دینے والی تجارت بنا لینا جائز ہے؟اور اسی طرح کے بعض دوسرے اہم مسائل پربحث کی جائے گی۔۲۔حیوانات کے حقوق اور ان کے احکام:اسلام دین رحمت ہے اور اس نے تمام مخلوقات کے ساتھ رحم دلی کی تعلیم دی ہے ان میں ایک حیوانات بھی ہیں، اس وقت دنیا بھر میں جانوروں کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، کیونکہ بعض جانوروں کی نسلیں ختم ہوتی جارہی ہیں اور ماحول پر منفی اثر پڑرہا ہے اسی لئے جانوروں کے تحفظ اور اس کو انسان کی ظلم وزیادتی سے بچانے کے لئے مختلف قوانین بنائے گئے ہیں اور جانوروں کے حقوق کے بارے میں مختلف اوقات میں سوالات اٹھتے رہے ہیں، اسی کے پیش نظر اکیڈمی نے اپنے سمینار میں اس کو بھی موضوع بحث بنایا ہے جس میں جانوروں کو جسمانی حجم بڑھانے اور دودھ میں اضافے کے لئے انجکشن دینے اور دوائیں دینا ،اسی طرح حلال اور حرام جانوروں کے درمیان جفتی کرانا، اسی طرح جانوروں کو پنجڑے میں رکھنا اور جانوروں پر میڈیکل تجربات کرنا جیسے اہم مسائل پر بحث کی جائے گی۔۳۔مکان کی خرید و فروخت سے متعلق نئے مسائل:انسان کی ایک بنیادی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت مکان ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کی ایک قابل لحاظ آبادی مکان کی سہولت سے محروم ہے، رفاہی تنظیمیں اور حکومتیں بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں،اور یہ سرمایہ کاری کا میدان بن چکا ہے اور شہروں میں یہ سب سے اہم تجارت بن گئی ہے اس سلسلہ میں متعدد مسائل دہلی کے تاجروں اور خریداروں کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں،فلیٹ اور مکانات اسی طرح پلاٹس کی خرید و فروخت میں ہونے والی دھوکہ دہی کے تعلق سے مختلف پہلوؤں پر بحث کی جائے گی۔۴۔طلاق اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل:انسان کواللہ تعالی نے جو امتیازات عطا فرمائے ہیں اس میں ایک خاندان بھی ہے اور اسلام میں خاندانی نظام کا استحکام بیحد اہم ہے اور خاندان کا ٹوٹ اور بکھر جانا اسی قدرنقصاندہ ہے، اسی پس منظر میں چند سوالات پر اس سمینار میں بحث کی جائے گی،جیسے آ ج کل لڑکے اور لڑکیاں اپنی پسند سے رشتہ کرنا چاہتے ہیں اور والدین کی مرضی اور ان کے مشورے کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں، اس سلسلہ میں صحیح رویہ کیا ہے؟اگر کسی عورت کو طلاق ہوگئی تو اس کا دوسرا نکاح کرانے کی ذمہ داری کن لوگوں پر ہوگی؟ اسی طرح مطلقہ عورتوں کا نفقہ کن رشتہ داروں پر واجب ہوگا؟شرعاً کن حالات میں کس عورت کو طلاق دینا جائز ہے؟اور اسی طرح کے دوسرے سماج سے مربوط مسائل پربحث ہوگی۔اس سمینارمیں اندرون ملک سے اہم علماء ، ماہرین اور عرب ممالک سے بھی علماء کے شریک کی توقع ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں