استقامت کو تیری سلام، "ہادیہ "
- ہادیہ نامی دوشیزہ کا مسئلہ اس وقت ملکی سطح پر موضوع بحث ہے، دوغلی میڈیا اس پر ٹی آر پی خوری کی نت نئی پالیسیاں وضع کررہی ہے، یہ اپنی نوعیت کا انوکھا معاملہ ہے کہ جس میں ایک جوڑے کی شادی کو اسقدر حساس مسئلہ بنادیا گیا ہے کہ ہندوستان کی نامور جانچ ایجنسی این آئی اے سے اس شادی کی تفتیش کرائی گئی، اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ۔
ہادیہ کیرالہ میں ایک غیرمسلم گھرانے سے ہے، بالغ اور پڑھی لکھی ہے، اس نے سوچ سمجھ کر اسلام کو مذہباً اختیار کیا، اور اپنے لیے ایک مسلم نوجوان شفین جہاں کو چُنا، لیکن اس کے متشدد گھرانے، نے اس معاملے کو فرقہ وارانہ رخ دے دیا اور ہادیہ کی شفین جہاں سے شادی کو لوجہاد قرار دیتے ہوئے پہلے اس کے شوہر کو ہراساں کرنا چاہا، پھر ہادیہ کے قبول اسلام کو ہی آئی ایس آئی ایس سے جوڑ دیا، بہرحال مقامی پولیس اور عدالت سے گذرتے ہوئے یہ معامله سپریم کورٹ پہنچا، جہاں آج چیف جسٹس آف انڈیا نے اس مقدمے کی سماعت کی، ہادیہ نے ججز کے روبرو صراحتاً اپنی آزادی کا مطالبہ کیا اور عدالت کو بتلایا کہ ان کا دل و دماغ اسلام کی طرف ہے اور وہ اپنی اگلی زندگی اسلامی چھاؤں میں گذارنا چاہتی ہیں،اس بیچ چونکہ ہادیہ کی تعلیم بھی متاثر تھی اسلیے سپریم کورٹ نے آج کیس کی سماعت ہادیہ کو تعلیمی آزادی دیتے ہوئے مکمل کی، اور ہادیہ کو تمل کالج میں پڑھنے کے لیے روانہ کرنے کے احکامات دیے، سپریم کورٹ نے ہادیہ اور شفین جہاں کے نکاح پر سماعت کے لیے معاملہ جنوری تک ملتوی کردیاہے ۔
اس پورے معاملے میں کئی پہلو قابل غور ہیں، جس پر ہم ملک کے انصاف پسندوں کی توجہ مبذول کراناچاہیں گے، لوگ بلا سوچے سمجھے بس خوشیاں مناتے ہیں کہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے، حالانکہ یہاں غور طلب تو یہی ہیکہ کیا ہادیہ اور شفین جہاں کا نکاح کوئی ایسا مسئلہ تھا کہ جو ملک کی عدالت عظمیٰ میں پیش کیا جاتا؟ ہادیہ آزاد ہے، بالغ و سمجھدار ہے، ملک کے دستور نے اسے مذہب اختیار کرنے کا بھی حق دیا ہے اور اپنے پسند کا جیون ساتھی چننے کی بھی آزادی آئین ہند نے اسے دی ہے، یہ سیدھی سی بات تھی، اس معاملے کو مقامی مقننہ اور منتظمہ حل نہیں کرسکتےتھے؟ داعش والے الزامات کی نفی تو پولیس بھی کرچکی تھی، پھر ملکی سطح کی جانچ ایجنسی کے حوالے یہ معاملہ کیوں کیا گیا؟ سب سے بڑا سوال یہ ہیکہ نچلی عدالتوں میں ہی انصاف کیوں نہیں ہوا؟ قانوناً تو ہادیہ آزاد تھی اور ہے، پھر کس بنا پر اس کے گھر والوں نے جبراً اسے گھر میں قید کردیا تھا؟ اولاد کے تئیں فطری رجحانات سمجھ میں آتے ہیں، لیکن اسقدر تشدد کہ معاملے کو دہشتگردی سے جوڑ دینا یہ کیسی ذہنیت ہے؟ اور اس پر مستزاد ہمارے ملک کی مقننہ اور منتظمہ نے بھی اس کو ایسا ایشو بنادیاہے گویا ایک جوڑے کا نکاح پورے ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہوگیا ہو، کیا اس سے ہادیہ پر ذہنی ٹارچر نہیں ہورہاہے؟ اگر ہادیہ کسی جینی یا پارسی سے نکاح کرتی تو کیا تب بھی یہی پالیسیاں ہوتیں؟ جب سرے سے یہ نجی نوعیت کا معاملہ تھا جو کہ ظاہر بھی ہے تو آخر اس کے لیے ملک کے چیف جسٹس اور این آئی اے کو کیوں سرجوڑنا پڑا؟ کیا اس سے ملک میں اور ملکی سسٹم میں زہریلی ذہنیت کا اشارہ نہیں ملتا؟ درحقیقت سسٹم میں یہ زہریلی ذہنیت ملک اور ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے، اور سب سے زیادہ ضرورت اسی کے تدارک کی ہے، خیر ہمیں امید ہیکہ سپریم کورٹ جنوری میں اس ستائی ہوئی بچی کے ساتھ انصاف کرے گا ۔
دوسرا پہلو یہاں، من حیث القوم ہمارے لیے ہے، ہم نے اس دوشیزہ کے لیے کیا، کیا؟ جس اسلام کو پڑھ کر اور سمجھ کر اپنی زندگی کے لیے اختیار کیا، اور بڑی جرأت کے ساتھ اس نے ان حالات کا مستقل مقابلہ کیا ہے، مجموعی سطح پر ہادیہ کے لیے کیا کوششیں ہوئی ہیں، اس کا احتساب ازحد ضروری ہے کیونکہ جہاں ملکی اور آئینی روشنی میں ہادیہ کو اس اقدام کی آزادی حاصل ہے وہیں اسلامی شریعت میں بھی صراحتاً اس تعلق سے اہل اسلام کو ابھارا گیا ہے،
قرآن میں الله فرماتاہے
إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ ﴾؛ أي: المؤمنات بألسنتهنَّ، مهاجرات مِن الكفار.
﴿ فَامْتَحِنُوهُنَّ ﴾؛ أي: اختبروهنَّ بالحَلِف أنهنَّ ما خرجْنَ إلا رغبةً في الإسلام لا بغضًا لأزواجهنَّ، ولا عِشقًا لرجالٍ مِن المسلمين.
﴿ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ ﴾؛ أي: صادقات في إيمانهنَّ بحسب حلفهنَّ.
فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ﴾؛ أي: لا تردوهنَّ إلى الكفار بمكة.
اس صریح آیت کی روشنی میں اہل ایمان کو اپنے رویے کا جائزہ لینا چاہیے جسے انہوں نے اس وقت ہادیہ کے معاملے میں اپنایا ہے،
لیکن یاد رہے اس کی ضرورت اب، بہن ہادیہ کو نہیں ہے، یہ ہمارا ایمانی فرض تھا، ہادیہ نے تو اپنی ایمانی عظمت کا ثبوت دے دیا، ہزارہا دھمکیوں اور ذہنی و جسمانی ٹارچر کے باوجود ہادیہ کا استقلال رشک آور ہے، ہادیہ نے آسیہ اور سمیہ ؓ کی یاد تازہ کی ہے، بے حس اور جامد معاشرے پر اس کا فاتحانہ وجود ہر وقت کچوکے لگائے گا، بڑے بڑے ایمانی دعویداروں کو ٹہوکے لگائے گا، وہ خاتون ہو کر بھی اکیلی اپنے ایمان کے لیے لڑتی رہی اور بالآخر ظلم اس کے قدموں میں سرنگوں ہوگا، سچی بات یہ ہیکہ اس نے ایمانی حلاوت کو چکھ لیا ہے اور اس کا وجود ایمانی عزیمت کی نشانی ہے، میں سلام کرتاہوں اس آہنی خاتون کو، اور اپنے جذبات اس بہن پر نچھاور کرتاہوں ۔
کہ
ظلم تجھ پر، بڑا ظالموں نے کیا
استقامت کو تیری سلام، "ہادیہ "
؞ سمیع اللّٰہ خان ؞
جنرل سکریٹری: کاروان امن و انصاف
ksamikhann@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں