مدارس کے نصاب میں حکومت کی مداخلت غیر ضروری ہے۔
تحریر،ریان احمد منجیرپٹی متعلم مدرسۃ الاصلاح
مکرمی! ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کو ماننے والے اور الگ الگ تہذیبوں و ثقافتوں کو سراہنے والے ایک ساتھ رہتے ہیں ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کی جڑیں تحت الثری میں ہیں اور جس کا مینار ثریا تک پہنچا ہوا ہے اسی بنیاد پر کوئ ملک اس کی ثقافت تہ تیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا اور جب انگریزوں نے اس ملک کی تہذیب و ثقافت اور اس کا نام صفحہ ہستی سے مسخ کرنا چاہا تو اس کی تہذیب و ثقافت کو برقرار رکھنے کیلۓ میدان کارزار میں ہمیں اگر کہیں گاندھی جی نظر آتے ہیں تو دوسری طرف مولانا محمد علی جوہر نظر آتے ہیں اگر کہیں ایک طرف پنڈت جواہر لال نہرو ہیں تو دوسری جگہ مولانا ابو الکلام آزاد رح نظر آتے ہیں ۔ان سورماؤں نے نصرت خداوندی سے ملک کو آزاد کرالیا ایک بار ہمارا ملک افق پر اپنی تہذیب و ثقافت اور بھائ چارگی کے ساتھ رونما ہوا ۔لیکن اس ملک کی پاک مٹی پر کچھ نقب زنوں نے جنم لیا اور اپنی ناپاک ذہنیت سے سادہ لوح انسانوں کو مذہب کے آڑے لکر اکسایا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ مسلمانوں کی ثقافت پر کرنے لگے اور انھیں ان کے مذہب پر عمل نہ کرنے کی ناپاک تدبیر کرنے لگے چنانچہ ہم نے دیکھا صوبہ میں بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی عربی مدارس کی فصیلوں پر ان کی تلواریں لٹکنے لگیں ۔ کبھی قومی ترانہ نہ گانے کا الزام لگا کر انھیں حرساں و پریشاں کیا گیا اب نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ حکومت ان مدارس کے نصاب میں این سی ای آرٹی کا تیار شدہ نصاب داخل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اگر اسمیں صرف ان کا عصری نصاب ہوتا تو قابل غور ہوتا لیکن ان کے مکر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ شرعی علوم میں بھی اپنا تیار شدہ نصاب داخل کرے گی اولا کسی بھی طرح حکومت کیلۓ یہ جائز نہیں کہ وہ ایسا اقدام کرے اگر اسے کچھ اختیار ہے تو صرف ان مدارس پر جن کا نظم و نسق ان کے بجٹ سے ہوتا ہے حکومت اس بات کی ہرگز حقدار نہیں ہے کہ وہ ان مدارس پر نظر اٹھاۓ جو اپنے بل بوتے پر چلتے ہیں جو قوم کی امداد باہمی پر کھڑے ہیں ۔اگر حکومت ایسا کوئ اقدام کرتی ہے تو یہ ادنی طالب علم قوم و ملت کے جوانوں اور سیکولر ذہنیت لیڈروں سے یہ گزارش کرتا ہے کہ وہ حکومت کو مجبور کریں کہ وہ اپنے گھناؤنے فیصلے سے رجوع کرے۔
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی۔
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے۔
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا۔
جبھی تو لوچ کماں کا،زباں تیر کی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں