میڈیا کاگرتا معیار جمہوری نظام کے لیے خطرناک
از:محمد عباس دھالیوال،مالیر کوٹلہ پنجاب
دنیاکے جمہوری ممالک میں سے آبادی کے لحاظ سے ہمارا دیش سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے ۔جمہوریت کا نظام جن ستونوں پر قائم ہے ان میں پریس یا میڈیا کو بہت ہی اہم اورمضبوط ستون خیال کیا جاتا ہے۔اسی لیے جمہوری ممالک میں میڈیا کی بہت خاص اور اہم ذمیداریاں ہوتی ہیں ۔اس سلسلے میں سرکار کی مختلف پالیسیوں کو لوگوں تک پہنچانے میں میڈیا کا اپنا ایک خاص اور اہم رول ہوتاہے جبکہ دوسری طرف عوام کی مشکلات ،مسائل اور ضروریات کو سرکار تک پہنچانے میں بھی میڈیا اہم رول نبھاتاہے یا یوں کہہ لیں کہ میڈیا ،عوام اور سرکار کے بیچ ایک پل کا کام کرتا ہے ۔جمہوری ممالک میں سرکار کے حق یا مخالف عوا م کی رائے بنانے میں بھی میڈیا کو خاص دخل حاصل ہے۔ایک فعال میڈیا ہمیشہ ملک کے عوام سے وابستہ روزانہ زندگی میںُ ٰژ پیش آنے والے مسائل کو سرکار سامنے نہ صرف اجاگر کرتا ہے بلکہ انکا حل نکالنے میں سرکار کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے۔پیش آنے والے مسائل کو سرکار کے سامنے نہ صرف اجاگر کرتا ہے بلکہ انکا حل نکالنے میں سرکار کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے لگاتار ہمارے ملک کے چھوٹے بڑ ے کاروباری جسطرح سے جی ایس ٹی کی ریٹرن بھرنے کے پیچیدہ مسائل کو لیکر پرییشایوں سے دوچار ہیں ان کو دیکھ کر ایسالگتا ہے کہ ا ن کے دکھ درد کو سرکار تک پہنچانے والا کوئی مسیحا نما میڈیا نظر نہیں آتا، اسی طرح گرتی جی ڈی پی ، اور پٹرول ڈیزل کی قیمتوں کے اضافہ سے بڑھتی مہنگائی سے بے حال ، غریب عوام کا بھی پرسان حال بھی کوئی نظر نہیں آتااور نوجوانوں میں بڑھ رہی بے روزگاری جیسے کتنے ہی مسائل ہیں جن پر خبریں اور بحث مباحثے اکثر نیوز چینل کے کینوس سے غائب نظر آتے ہیں ۔اس وقت ملک میں میڈیا کے جو حالات ہیں وہ بہت قابل فکرہیں۔ٹریجڈی یہ ہے کہ آج ہما را میڈیا اپنا وہ فرض ادا نہیں کر پا رہا جو اسکے بنیادی فرائض میں و اخل ہے۔ میڈیا سے متعلقہ ماہرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ آج میڈیا کو ضروری مدعوں پر سے دھیان ہٹانے کے لیے کسی نہ کسی حد تک مینیج کیا جاتا ہے اسکے علاوہ انگریزی نیوز چینلز اوردیگر ہندی نیوز چینلز کی خبروں میں کافی فرق پایا جاتا ہے ۔ جن مدعوں پربڑے زور و شور سے ہندی نیوز چینلز پر بحث مباحثے چلتے دکھائی دیتے ہیں وہی مدعے انگریزی چینلزسے یکدم غائب نظر آتے ہیں ۔اس سے اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ہندی اور انگریزی ناظرین کی سوچ و فکر میں بھی کافی تضاد پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ موجودہ عہدمیں الیکٹرانک میڈیا اپنی ٹی ۔ آر ۔پی بڑھانے کی ہوڑ کے چلتے ، اچھی بری خبروں میں تمیز کرنا بھلا کر ،خبر کو مرچ مسالہ لگا کراور زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بنا کر پیش کرتے ہیں ،چاہے ان خبروں کے سماج پرکتنے ہی منفی اثرات کیوں نہ پڑیں۔آج میڈیا دانستہ یا نادانستہ طور پر معاشرے کی زمینی حقیقت یا لوگو ں کے اصل دکھ درد کو دکھانے سے گریز کرتا ہوامحسوس ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے مشاہدہ میں آیا ہے کہ کچھ ایک نیوز چینل کو چھوڑ کر باقی کے نیوز چینل خبروں کے نام پر عوام کے ساتھ مزاق کر رہے ہیں۔جیسی واہیات قسم اور بنا کسی سر پیر کی خبریں اور بحث مباحثے ان چینل کی طرف سے سنسنی خیز بنا کر الگالگ نیوز اینکرز کی جانب سے پوری اداکاری کے ساتھ پیش کیئے جاتے ہیں اسکے چلتے عوام کی زندگی سے جڑے اصل مدعے کہیں نہ کہیں دم توڑ جاتے ہیں۔
گزشتہ ڈیڑھ دو مہینوں کا ہی اگر ہم جائیزہ لیں تو بشتر نیوز چینل خبروں کے نام پہ عوام وجمہوریت کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ۲۵ اگست سے جس طرح سے لگاتار گرمیت بابا اور ہنی پریت کے قصے کہانیاں بریکنگ نیوز بنا کر پیش کررہے ہیں ا ور اس ضمن میں نیوز چینل نے جس طرح سے اخلاقی معیار کی تمام حدوں کومسمار کرتے ہوئے صحافت کی ۔۔اور صحافت بھی ایسی کہ کچھ نیوز تو اس سطح تک غیر اخلاقی تھیں کہ جن کو پریوار میں ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھنا بھی مشکل تھااور شایدایسی صحافت کی تاریخ میں مثال دینا بھی مشکل ہے۔ غور کیا جائے تو ملک کے غریب بے روزگار عوام کا بھلاگرمیت بابا یا،ہنی پریت کی کہانیوں سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہے اور ہاں۔۔ باباگرمیت کا ہنی پریت سے کیا رشتہ ہے ۔۔یاگرمیت بابا کے جیل میں زندگی کے شب روز کیسے گزر رہے ہیں ۔۔ یا سلمان کب شادی کریگا ،ایسی خبروں سے بھلا ملک میں دو وقت کا کھانا جٹانے میں جٹے غریب لوگوں کو کیا سروکار ہو سکتا ہے اور نہ ہی ایسی خبروں سے ملک و قوم کا کوئی بھلا ہو سکتا ہے۔جب بھی کسی برننگ اسکینڈل یا مدعا سے دھیان منتشر کرنا مقصودہو تو ایک فرقہ کے کسی غیر ذمیدا رفرد کی طرف سے دوسرے فرقہ کے خلاف ایسا اشتعال انگیز بیان داغ دیاجاتاہے کہ جس سے ملک کے دونوں فرقوں کے معصوم لوگ اس پر اپنی دانت گھسائی کرتے رہ جاتے ہیں اوراس طرح مین سٹریم والے اسکینڈل یا مدعے کو پس پردہ ڈال کر ہمیشہ ہمیش کے لیے دبا دیا دیاجاتا ہے۔جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے بلکہ حقیقت میں صحافت کو تمام ملک کے حالات کا آئینہ بننا چاہیئے۔بقول شاعر
تنقید میں برابر اپنا ہو یا پرایا
یعنی زباں نے ہم کو سچ بولنا سکھایا
اگرہم اہل وطن اصل معنوں میں اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود اور دیش کی ترقی چاپتے ہیں تو ہم لوگوں کو اپنی سوچ اور نظریہ میں تبدیلی ضرور لانی ہوگی۔ہمیں ایسے نیوز چینلز سے اچھی معیاری اور معاشرے کو صحیح گائیڈ لائین دینے والی خبروں کی مانگ کرنا چاہیئے ۔اگر پھر بھی کچھ نام نہاد نیوز چینلزاپنی نفرت پھیلانے والی خبروں کے ذریعے عوام کا ذہنی استحصال کرنے سے باز نہیں آتے تو ایسے نیوز چینلز کا سماجی بائیکاٹ کرنا چاہیئے اور ا ہمیں انکے سبھی پروگرام دیکھنے بند کردینا چاہیئیں۔ملک کے سب چھوٹے بڑے میڈیا سے جڑے مالکان ،ذمیداران اور جرنلسٹوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام ذاتی اغراض و مقاصد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک، عوام اورجمہوریت کی بقاو پاسبانی کے لیے ایک دم صحیح وپختہ و حقائق پر مبنی صداقت سے بھرپور صحافت کو انجام دیں، ملک کے عوام کو جہاں تک ہو سکے مذہب،فرقہ پرستی کے نام پر نفرت پھیلانے والی اورعوام کو فرقوں میں تقسیم کرنے والی خبروں کو پیش کرنے سے اجتناب کریں۔ساتھ ہی ملک میں گنگا جمنی تہذیب اور آپسی پیار و محبت اور رواداری کو بڑھاوا دینے والی ،معاشرہ میں خیر سگالی پھیلانے والی زیادہ سے زیادہ خبریں پیش کریں۔یقیناًاسی میں دیش وقوم اور ہم سب کی خیر وعافیت اور ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں