چوں کفر از کعبہ برخیزد
مولانا ندیم الواجدی
صدر ٹرمپ کے ریاض دورے کے بعد سعودی عرب نے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان سے پورے عالم اسلام میں تشویش پیدا ہوگئی ہے، سب سے پہلے تو پڑوسی ریاست قطر کا بائیکاٹ کیا گیا اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے اور خطے کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے، داخلی سطح پر بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کو اس وقت یہاں زیر بحث لانا مضمون کی طوالت کا باعث ہوگا، البتہ ہم سعودی فرماں روا شاہ سلطان کے خلف الرشید ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک بیان کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہیں گے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ۹۷۹۱ء سے پہلے ہم ایسے نہیں تھے جیسے اب ہیں، ۹۷۹۱ء کے بعد مختلف وجوہات کے تحت الصحوہ (بیداری) کی تحریک چلائی گئی، اب ہم اس طرف واپس جارہے ہیں جیسے ہم پہلے تھے، ایسے اسلام کی طرف جارہے ہیں جو معتدل ہے اور جس میں دنیا اور دیگر مذاہب کے لئے جگہ ہے، شہزادے کے اس بیان کے فوراً بعد حکومت سعودیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملکی معیشت کا انحصار تیل پر کم کرکے سیاحت اور تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جدہ کے قریب کنگ عبد اللہ اکنامک سٹی تعمیر کرنے والے گروپ ای ای سی کے چیف ایگزیکٹیو فہد الراشد نے اعلان کیا ہے کہ اب ملک میں جاز فیسٹول منعقد کئے جائیں گے، جن میں غیر ملکی موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے، ان کا خیال ہے کہ ان پروگراموں میں سعودی شہریوں کی بڑی تعداد شرکت کرے گی، ویزہ کی موجودہ پالیسی کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ غیر ملکی شائقین زیادہ تعداد میں نہ آئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ سعودی حکومت اب اپنے ملک کو روشن خیالی اور جدت پسندی کی اس شاہ راہ پر لے جانا چاہتی ہے جس پر امریکہ اور یورپ جیسے ملک چل رہے ہیں، اب تک وہ جس اسلام کی نمائندگی کررہی تھی وہ کچھ اور اسلام تھا، سمجھا جاتا تھا کہ سعودی عرب تنہا ایسا ملک ہے جہاں اسلامی قوانین کے معتد بہ حصے پر عمل کیا جاتا ہے، آہستہ آہستہ ملک کو قدامت پسندی کے اس خول سے باہر نکالنے کی کوشش ہورہی ہے، ہم اس پر سوائے اظہار افسوس کے کر بھی کیا کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں اتنا کہنے کا تو حق ہے کہ آپ اپنے ملک کے مطلق العنان بادشاہ ہیں، جو چاہیں کریں لیکن للہ اسلام کو معتدل اور غیر معتدل اسلام میں تو تقسیم نہ کریں، اسلام تو روز اول ہی سے معتدل دین ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری آسمانی دین کو جن بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ہے ان میں ایک وصفِ خاص اور ایک طرہئ امتیاز یہ ہے کہ اس کا ہر حکم معتدل، اور ہر طرح کی افراط وتفریط سے پاک ہے، قرآن کریم میں ہے اور اسی طرح ہم نے تم کو متوسط اور معتدل امت بنایا ہے (البقرہ: ۲۴۱) اسلام کا یہ وصفِ اعتدال ہمیں اس کی تمام تعلیمات میں نظر آتا ہے، خواہ وہ تعلیمات عملی ہوں یا اعتقادی، خواہ ان کا تعلق عبادت سے ہو یا معاشرت سے، ہر معاملے میں اسلام یہی کہتا ہے کہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو، ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ولی عہد محمد بن سلمان کون سے معتدل اسلام کی بات کررہے ہیں، کیا معتدل اسلام میں موسیقی کی اجازت ہوگی، کیا بے پردگی اور بے حیائی کے مناظر، مخلوط تعلیم کی درس گاہوں، رقص وسرود کی محفلوں اور جام ومینا کی گردشوں سے اسلام معتدل ہوجاتا ہے، ہم پھر یہی کہیں گے کہ آپ حاکمِ وقت ہیں، ملک کی زمام کار آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ کچھ بھی کریں مگر اسے معتدل اسلام کا خوب صورت نام دے کر دنیا کو گمراہ تو نہ کریں، اسلام تو آفاقی مذہب ہے، اس کے اصول بھی آفاقی ہیں اور تعلیمات بھی آفاقی ہیں، چودہ سو سال پہلے جو اسلام تھا اور چودہ سو سال سے جو اسلام ہے وہی اسلام آج بھی ہے اور وہی آئندہ بھی رہے گا، اگر سعودی عرب جیسا ملک جس کی اسلام پسندی پر ہم فخر کرتے نہیں تھکتے تھے دین کو بازیچہئ اطفال بنائے گا تو اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا، مغربی دنیا تک انھوں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب تک سعودی عرب ایک ایسے اسلام پر کاربند تھا جو راہ اعتدال سے ہٹا ہوا تھا اور جو کسی مجبوری کے تحت اختیار کیا گیا تھا، اب ملک کو معتدل اسلام کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں سختی کے بہ جائے نرمی ہے، شدت کے بہ جائے سہولت ہے، انتہا پسندی کے بہ جائے اعتدال ہے، توسط ہے، میانہ روی ہے۔
سعودی عرب نے اپنے مستقبل کے لئے کیا نقشہ بنایا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی واحد اسلامی تنظیم رابطہئ عالم اسلامی کا اجلاس تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ کی میزبانی میں نیویارک میں منعقد کیا گیا، ۷۱/ ستمبر ۷۱۹۱ء سے شروع ہونے والے اس دوروزہ کانفرنس کا عنوان تھا ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور عالم اسلام میں رابطہ کاری رابطہ عالم اسلام کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم الشیبی نے کانفرنس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد اسلامی تہذیب وثقافت کے درخشندہ باب کو دنیا کے سامنے پیش کرنا، دوسری تہذیبوں کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینا اور اسلام کی سنہری روایات کو دنیا کے سامنے اجاگر کرتے ہوئے اسلام کی خراب شبیہ کو بچانا ہے، بہ ظاہر تو مقاصد اچھے تھے، ان مقاصد کی تکمیل کا نفرنس کے ذریعے ہوئے یا نہیں ہوئی یہ الگ موضوع ہے، لیکن اس کے ذریعے عالم اسلام میں امریکہ کی داغدار شبیہ کو سنوارنے کی کوشش ضرور کی گئی، چناں چہ امام حرم شیخ سدیس نے کانفرنس میں شرکت کے بعد ایک ٹی وی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعودی فرماں روا شاہ سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ دونوں امن عالم کے فروغ اور استحکام کے لئے دنیا کی قیادت کررہے ہیں، شیخ سدیس کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رابطے کی کانفرنس کا کیا مقصد تھا، اور امریکی میزبانی کا حقِ شکر کس طرح ادا کیا گیا۔
اسی ضمن میں ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ سعودی عرب کے اسکولوں اور کالجوں میں جو نصاب تعلیم پڑھایا جارہا ہے اس میں تبدیلی کی جائے گی، اگر خبر اتنی ہی ہوتی تب بھی کوئی حرج نہیں تھا، ترقی پسند معاشرے میں نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، تاہم خبر کا یہ پہلو انتہائی افسوس ناک ہے کہ یہ نصاب امریکی ماہرین کی نگرانی میں مرتب ہورہا ہے، اور اس میں قرآن وحدیث کے وہ حصے شامل نہیں کئے جائیں گے جو جہاد پر مشتمل ہیں یا جن سے بہ قول ان کے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ اب ایک خبر اور آئی ہے، بہ ظاہر تو یہ بہت اچھی خبر ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کی جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں ان سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سعودی عرب اپنی اصل شناخت کھو رہا ہے اور اب وہ ایک نئے قالب میں ڈھلنے کی کوشش کررہا ہے جو مغربی کی خواہشات اور توقعات کے عین مطابق ہوگا، اس خبر کی تفصیل یہ ہے کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبد العزیز نے خادم الحرمین الشریفین کمپلکس برائے حدیث نبوی کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے، جس میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر جامع انداز میں کام ہوگا، یہ ادارہ فن حدیث کے ماہرین اور شیوخ پر مشتمل ہوگا، اس سلسلے میں شاہ سلمان کی جانب سے جو فرمان جاری کیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ حدیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل اسلام کے نزدیک غیر معمولی مقام ومرتبہ ہے، قرآن کریم کے بعد احادیث نبوی اسلام کا دوسرا مأخذ ہے، خبر اس حد تک تو بڑی خوش آئند اور مسرت انگیز ہے، چناں چہ جیسے ہی خبر عام ہوئی عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اس سے پہلے سعودی عرب قرآن کریم کی بے مثال خدمت انجام دے چکا ہے، اور اب بھی خدمت کا یہ سلسلہ جاری ہے، مکہ مکرمہ میں سالہا سال سے ایک ادارہ قائم ہے جو قرآن کریم کی لگاتار خدمت انجام دے رہا ہے، اس دوران قرآن کریم کے کڑوڑ ہا کڑوڑ نسخے چھپ کر پوری دنیا میں تقسیم کئے جاچکے ہیں، دنیا کی بہت سی زبانوں کے معتبر ومستند تراجم اور تفاسیر کی طباعت کا قابل قدر کام بھی اسی دارے کے تحت انجام دیا جاتا ہے، قرآن کریم کے سلسلے میں سعودی حکومت کی اس بے مثال اور قابل قدر خدمت کو دیکھتے ہوئے حدیث کی خدمت کے لئے مدینہ منورہ میں مذکورہ ادارے کے قیام کی خبر کا استقبال نہ کرنا اور اس پر مسرت کا اظہار نہ کرنا ناانصافی ہوگی، لیکن ابھی چند روز قبل جو خبر آئی ہے اس نے مسلمانوں میں بہ طور خاص اہل علم میں تشویش کی لہر دوڑ ادی ہے اور ہماری تمام خوشیوں پر پانی پھیر دیا ہے، خبر میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے انتہا پسندی کے خاتمے اور اسلام کو جدید شکل میں پیش کرنے کے لئے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی از سر نو تدوین کا فیصلہ کیا ہے، اطلاع کے مطابق اس کام کے لئے ماہرین فن کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، یہ خبر برطانوی خبر رساں ایجنسی رایٹرز نے جاری کی ہے، اور ہندوستان میں ٹائمز آف انڈیا سمیت تمام اخبارات نے اسے صفحہ اول پر نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے، رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت اب وہابی ازم کو ختم کرنا چاہتی ہے، ذرائع کے مطابق تشدد، اور انتہا پسندی پر مشتمل احادیث کو کتابوں سے نکالا جائے گا، ساتھ ہی اس کی بھی تحقیق کی جائے گی کہ اب تک ہم جسے حدیث سمجھ رہے تھے وہ واقعی حدیث ہے یا کوئی فرضی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردی گئی ہے، حدیث شریف کی تدوین نو کے نام پر یہ دونوں ہی فیصلے انتہائی قابل مذمت ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث کی تدوین کا عمل اسلام کی پہلی اور دوسری صدی میں مکمل ہوچکا ہے، اس سلسلے میں احادیث کے سینکڑوں مجموعے مطبوعہ شکل میں موجود ہیں جن سے امت برابر استفادہ کررہی ہے، جہاں تک موضوع اور من گھڑت احادیث کا تعلق ہے اس پر بھی وقیع کام ہوا ہے اور بے شمار مجموعے صرف موضوع احادیث کی نشاندہی کے لئے لکھے گئے ہیں، یہ ظاہر ہے اس نوعیت کے کسی نئے کام کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بخاری ومسلم جیسے وقیع مستند اور قابل اعتماد کتابیں موجود ہیں جن کی صحت پر صدیوں سے امت کا اتفاق ہے، پورے مجموعہ احادیث میں تشدد اور انتہا پسندی پر مشتمل کوئی حدیث موجود ہی نہیں ہے، البتہ احادیث جہاد ضرور موجود ہیں جن کو تشدد اور انتہا پسندی پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا، تمام ذخیرہئ احادیث پر امن اسلامی تعلیمات پرمشتمل ہے، اپنے تو اپنے غیر بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں، ہمیں شبہ ہے کہ سعودی حکومت اپنے نئے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے حدیث نبوی کے تقدس اور اس کے استناد کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے، مسلمانوں کی طرف سے اس ادارے کے خلاف احتجاج ہونا بے حد ضروری ہے۔
صدر ٹرمپ کے ریاض دورے کے بعد سعودی عرب نے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان سے پورے عالم اسلام میں تشویش پیدا ہوگئی ہے، سب سے پہلے تو پڑوسی ریاست قطر کا بائیکاٹ کیا گیا اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ دہشت گردی کی پشت پناہی کررہا ہے اور خطے کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے، داخلی سطح پر بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کو اس وقت یہاں زیر بحث لانا مضمون کی طوالت کا باعث ہوگا، البتہ ہم سعودی فرماں روا شاہ سلطان کے خلف الرشید ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک بیان کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہیں گے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ۹۷۹۱ء سے پہلے ہم ایسے نہیں تھے جیسے اب ہیں، ۹۷۹۱ء کے بعد مختلف وجوہات کے تحت الصحوہ (بیداری) کی تحریک چلائی گئی، اب ہم اس طرف واپس جارہے ہیں جیسے ہم پہلے تھے، ایسے اسلام کی طرف جارہے ہیں جو معتدل ہے اور جس میں دنیا اور دیگر مذاہب کے لئے جگہ ہے، شہزادے کے اس بیان کے فوراً بعد حکومت سعودیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملکی معیشت کا انحصار تیل پر کم کرکے سیاحت اور تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جدہ کے قریب کنگ عبد اللہ اکنامک سٹی تعمیر کرنے والے گروپ ای ای سی کے چیف ایگزیکٹیو فہد الراشد نے اعلان کیا ہے کہ اب ملک میں جاز فیسٹول منعقد کئے جائیں گے، جن میں غیر ملکی موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے، ان کا خیال ہے کہ ان پروگراموں میں سعودی شہریوں کی بڑی تعداد شرکت کرے گی، ویزہ کی موجودہ پالیسی کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ غیر ملکی شائقین زیادہ تعداد میں نہ آئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ سعودی حکومت اب اپنے ملک کو روشن خیالی اور جدت پسندی کی اس شاہ راہ پر لے جانا چاہتی ہے جس پر امریکہ اور یورپ جیسے ملک چل رہے ہیں، اب تک وہ جس اسلام کی نمائندگی کررہی تھی وہ کچھ اور اسلام تھا، سمجھا جاتا تھا کہ سعودی عرب تنہا ایسا ملک ہے جہاں اسلامی قوانین کے معتد بہ حصے پر عمل کیا جاتا ہے، آہستہ آہستہ ملک کو قدامت پسندی کے اس خول سے باہر نکالنے کی کوشش ہورہی ہے، ہم اس پر سوائے اظہار افسوس کے کر بھی کیا کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں اتنا کہنے کا تو حق ہے کہ آپ اپنے ملک کے مطلق العنان بادشاہ ہیں، جو چاہیں کریں لیکن للہ اسلام کو معتدل اور غیر معتدل اسلام میں تو تقسیم نہ کریں، اسلام تو روز اول ہی سے معتدل دین ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری آسمانی دین کو جن بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ہے ان میں ایک وصفِ خاص اور ایک طرہئ امتیاز یہ ہے کہ اس کا ہر حکم معتدل، اور ہر طرح کی افراط وتفریط سے پاک ہے، قرآن کریم میں ہے اور اسی طرح ہم نے تم کو متوسط اور معتدل امت بنایا ہے (البقرہ: ۲۴۱) اسلام کا یہ وصفِ اعتدال ہمیں اس کی تمام تعلیمات میں نظر آتا ہے، خواہ وہ تعلیمات عملی ہوں یا اعتقادی، خواہ ان کا تعلق عبادت سے ہو یا معاشرت سے، ہر معاملے میں اسلام یہی کہتا ہے کہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو، ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ولی عہد محمد بن سلمان کون سے معتدل اسلام کی بات کررہے ہیں، کیا معتدل اسلام میں موسیقی کی اجازت ہوگی، کیا بے پردگی اور بے حیائی کے مناظر، مخلوط تعلیم کی درس گاہوں، رقص وسرود کی محفلوں اور جام ومینا کی گردشوں سے اسلام معتدل ہوجاتا ہے، ہم پھر یہی کہیں گے کہ آپ حاکمِ وقت ہیں، ملک کی زمام کار آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ کچھ بھی کریں مگر اسے معتدل اسلام کا خوب صورت نام دے کر دنیا کو گمراہ تو نہ کریں، اسلام تو آفاقی مذہب ہے، اس کے اصول بھی آفاقی ہیں اور تعلیمات بھی آفاقی ہیں، چودہ سو سال پہلے جو اسلام تھا اور چودہ سو سال سے جو اسلام ہے وہی اسلام آج بھی ہے اور وہی آئندہ بھی رہے گا، اگر سعودی عرب جیسا ملک جس کی اسلام پسندی پر ہم فخر کرتے نہیں تھکتے تھے دین کو بازیچہئ اطفال بنائے گا تو اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا، مغربی دنیا تک انھوں نے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب تک سعودی عرب ایک ایسے اسلام پر کاربند تھا جو راہ اعتدال سے ہٹا ہوا تھا اور جو کسی مجبوری کے تحت اختیار کیا گیا تھا، اب ملک کو معتدل اسلام کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں سختی کے بہ جائے نرمی ہے، شدت کے بہ جائے سہولت ہے، انتہا پسندی کے بہ جائے اعتدال ہے، توسط ہے، میانہ روی ہے۔
سعودی عرب نے اپنے مستقبل کے لئے کیا نقشہ بنایا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی واحد اسلامی تنظیم رابطہئ عالم اسلامی کا اجلاس تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ کی میزبانی میں نیویارک میں منعقد کیا گیا، ۷۱/ ستمبر ۷۱۹۱ء سے شروع ہونے والے اس دوروزہ کانفرنس کا عنوان تھا ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور عالم اسلام میں رابطہ کاری رابطہ عالم اسلام کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم الشیبی نے کانفرنس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد اسلامی تہذیب وثقافت کے درخشندہ باب کو دنیا کے سامنے پیش کرنا، دوسری تہذیبوں کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینا اور اسلام کی سنہری روایات کو دنیا کے سامنے اجاگر کرتے ہوئے اسلام کی خراب شبیہ کو بچانا ہے، بہ ظاہر تو مقاصد اچھے تھے، ان مقاصد کی تکمیل کا نفرنس کے ذریعے ہوئے یا نہیں ہوئی یہ الگ موضوع ہے، لیکن اس کے ذریعے عالم اسلام میں امریکہ کی داغدار شبیہ کو سنوارنے کی کوشش ضرور کی گئی، چناں چہ امام حرم شیخ سدیس نے کانفرنس میں شرکت کے بعد ایک ٹی وی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعودی فرماں روا شاہ سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ دونوں امن عالم کے فروغ اور استحکام کے لئے دنیا کی قیادت کررہے ہیں، شیخ سدیس کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رابطے کی کانفرنس کا کیا مقصد تھا، اور امریکی میزبانی کا حقِ شکر کس طرح ادا کیا گیا۔
اسی ضمن میں ایک خبر یہ بھی آئی ہے کہ سعودی عرب کے اسکولوں اور کالجوں میں جو نصاب تعلیم پڑھایا جارہا ہے اس میں تبدیلی کی جائے گی، اگر خبر اتنی ہی ہوتی تب بھی کوئی حرج نہیں تھا، ترقی پسند معاشرے میں نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، تاہم خبر کا یہ پہلو انتہائی افسوس ناک ہے کہ یہ نصاب امریکی ماہرین کی نگرانی میں مرتب ہورہا ہے، اور اس میں قرآن وحدیث کے وہ حصے شامل نہیں کئے جائیں گے جو جہاد پر مشتمل ہیں یا جن سے بہ قول ان کے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ اب ایک خبر اور آئی ہے، بہ ظاہر تو یہ بہت اچھی خبر ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کی جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں ان سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سعودی عرب اپنی اصل شناخت کھو رہا ہے اور اب وہ ایک نئے قالب میں ڈھلنے کی کوشش کررہا ہے جو مغربی کی خواہشات اور توقعات کے عین مطابق ہوگا، اس خبر کی تفصیل یہ ہے کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبد العزیز نے خادم الحرمین الشریفین کمپلکس برائے حدیث نبوی کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے، جس میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر جامع انداز میں کام ہوگا، یہ ادارہ فن حدیث کے ماہرین اور شیوخ پر مشتمل ہوگا، اس سلسلے میں شاہ سلمان کی جانب سے جو فرمان جاری کیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ حدیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل اسلام کے نزدیک غیر معمولی مقام ومرتبہ ہے، قرآن کریم کے بعد احادیث نبوی اسلام کا دوسرا مأخذ ہے، خبر اس حد تک تو بڑی خوش آئند اور مسرت انگیز ہے، چناں چہ جیسے ہی خبر عام ہوئی عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اس سے پہلے سعودی عرب قرآن کریم کی بے مثال خدمت انجام دے چکا ہے، اور اب بھی خدمت کا یہ سلسلہ جاری ہے، مکہ مکرمہ میں سالہا سال سے ایک ادارہ قائم ہے جو قرآن کریم کی لگاتار خدمت انجام دے رہا ہے، اس دوران قرآن کریم کے کڑوڑ ہا کڑوڑ نسخے چھپ کر پوری دنیا میں تقسیم کئے جاچکے ہیں، دنیا کی بہت سی زبانوں کے معتبر ومستند تراجم اور تفاسیر کی طباعت کا قابل قدر کام بھی اسی دارے کے تحت انجام دیا جاتا ہے، قرآن کریم کے سلسلے میں سعودی حکومت کی اس بے مثال اور قابل قدر خدمت کو دیکھتے ہوئے حدیث کی خدمت کے لئے مدینہ منورہ میں مذکورہ ادارے کے قیام کی خبر کا استقبال نہ کرنا اور اس پر مسرت کا اظہار نہ کرنا ناانصافی ہوگی، لیکن ابھی چند روز قبل جو خبر آئی ہے اس نے مسلمانوں میں بہ طور خاص اہل علم میں تشویش کی لہر دوڑ ادی ہے اور ہماری تمام خوشیوں پر پانی پھیر دیا ہے، خبر میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے انتہا پسندی کے خاتمے اور اسلام کو جدید شکل میں پیش کرنے کے لئے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی از سر نو تدوین کا فیصلہ کیا ہے، اطلاع کے مطابق اس کام کے لئے ماہرین فن کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، یہ خبر برطانوی خبر رساں ایجنسی رایٹرز نے جاری کی ہے، اور ہندوستان میں ٹائمز آف انڈیا سمیت تمام اخبارات نے اسے صفحہ اول پر نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے، رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت اب وہابی ازم کو ختم کرنا چاہتی ہے، ذرائع کے مطابق تشدد، اور انتہا پسندی پر مشتمل احادیث کو کتابوں سے نکالا جائے گا، ساتھ ہی اس کی بھی تحقیق کی جائے گی کہ اب تک ہم جسے حدیث سمجھ رہے تھے وہ واقعی حدیث ہے یا کوئی فرضی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردی گئی ہے، حدیث شریف کی تدوین نو کے نام پر یہ دونوں ہی فیصلے انتہائی قابل مذمت ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث کی تدوین کا عمل اسلام کی پہلی اور دوسری صدی میں مکمل ہوچکا ہے، اس سلسلے میں احادیث کے سینکڑوں مجموعے مطبوعہ شکل میں موجود ہیں جن سے امت برابر استفادہ کررہی ہے، جہاں تک موضوع اور من گھڑت احادیث کا تعلق ہے اس پر بھی وقیع کام ہوا ہے اور بے شمار مجموعے صرف موضوع احادیث کی نشاندہی کے لئے لکھے گئے ہیں، یہ ظاہر ہے اس نوعیت کے کسی نئے کام کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بخاری ومسلم جیسے وقیع مستند اور قابل اعتماد کتابیں موجود ہیں جن کی صحت پر صدیوں سے امت کا اتفاق ہے، پورے مجموعہ احادیث میں تشدد اور انتہا پسندی پر مشتمل کوئی حدیث موجود ہی نہیں ہے، البتہ احادیث جہاد ضرور موجود ہیں جن کو تشدد اور انتہا پسندی پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا، تمام ذخیرہئ احادیث پر امن اسلامی تعلیمات پرمشتمل ہے، اپنے تو اپنے غیر بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں، ہمیں شبہ ہے کہ سعودی حکومت اپنے نئے ایجنڈے کے نفاذ کے لئے حدیث نبوی کے تقدس اور اس کے استناد کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے، مسلمانوں کی طرف سے اس ادارے کے خلاف احتجاج ہونا بے حد ضروری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں