گجرات اسمبلی انتخاب میں مسلمان کہاں ہیں ؟ مولاناعامر رشادی مدنی
راشٹریہ علماء کونسل نے پوچھا کوئی لیڈر یا پارٹی مسلمانوں کی بات کیوں نہیں کرتی؟
گجرات(یواین اےنیوز7نومبر2017)حصول آزادی کے ستر سال بعد بھی ملک کا بڑاطبقہ مایوس اور سرکاری استحصال کا شکار ہے آزادی کے بعد سے ہی دلت،پچھڑا اور مسلم سماج مقتدرا سرکاری مشینری کے ظلم اور دہشت سے متاثررہا ہے،حالانکہ انھیں ہی اقتدار کے زینے کے طور پر استعمال کیا گیا لیکن دہائی تک ان کی تعلیمی،سماجی،اقتصادی اور سیاسی ترویج و ترقی کی کوئی کوشش نہیں کی گئی،اس کی دہائی میں جب دلتوں اور پچھڑوں میں اپنے حقوق کی باز یابی کے لئے بیداری پیدا ہوئی تو انھوں نے اپنے سماج کو منظم کرکے علاقائی سطح پر مختلف سیاسی تنظیموں کی شکل میں پیش کیا اور اپنے سماج کے حقوق کے لئے آواز بلند کر اس کی بقاء و ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے،لیکن مسلم سماج کی حالت میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہ ہوسکی،اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اسے آزادی کے بعد ہی یہ سمجھا دیا گیا تھا کہ تم اقلیت ہو اور اس ملک میں تنہا کچھ نہیں کر سکتے،نیز تمہارااپنا سیاسی پلیٹ فارم اور قیادت تمہارے لئے سود مند اور مناسب نہیں ہے ،لہٰذا ان سے دہائیوں تک ’’سیکولرزم کے قلی‘‘کی شکل میں غلامی کروائی گئی اور جب مسلمانوں میں تھوڑی بہت سیاسی بیداری جاگی تو فرقہ پرست تنظیموں کو ورغلایا گیا تاکہ مذہب اور ذات کے نام پر عوام کو تقسیم کیا جاسکے،اور مسلمانوں کو خوف دہشت اور عدم تحفظ کے ماحول میں رکھ کر ان سے غلامی کو بدستور باقی رکھا جاسکے، اس وقت کے حکمرانوں نے نام نہاد سیکولرلیڈروں کے ذریعہ مسلمانوں کو ووٹ بینک بنائے رکھنے کے لئے یہ کہکر خوفزدہ کیا کہ ’’تم ہمیں ووٹ دو،ہم تم کو تحفظ دیں گے‘‘اس طرح مسلمانوں کو تعلیم ،روزگار، صحت ،ریزرویشن،ترقی وبہبودی وغیرہ جیسے بنیادی مسائل سے دوررکھ کر محض ووٹ بینک کے طور استعمال کیا گیا۔مسلمانوں کا یہ سیاسی استحصال کسی اور نے نہیں بلکہ ساٹھ سال تک مسلمانوں کے ووٹ پر حکومت کر نے والی سیکولرزم کی مسیحا کانگریس نے کیا۔جس کا سلسلہ بدستور جا ری ہے ۔کانگریس کے نقش قدم پر چل کر دیگر نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرتی آرہی ہے۔راشٹریہ علماء کونسل ایسی غلامی ،عدم تحفظ ،منفی سوچ اور ووٹ بیک کی سیاست کو لات مارتی ہے ،ظلم ،بد عنوانی ،دہشت اور نا انصافی کا خاتمہ کر نے کے لئے ہی راشٹریہ علماء کونسل کا وجود عمل میں آیا ہے۔آج متواترو مسلسل جدو جہد اور عوامی تحریکوں کے توسط سے مظلوموں،کمزوروں اور ظلم و زیادتی ،ناانصافی کے شکار عام آدمی کی کونسل ایک مضبوط آواز بن چکی ہے ۔جو مذہب ،ذات، فرقہ و علاقہ واریت کی حدود سے اوپر اٹھ کر ظلم وزیادتی اور نا انصافی کی خلاف بر سر پیکار ہے ۔کونسل کی یہ جنگ حد درجہ کمزور ،استحصال کے شکار اور حقوق و مراعات سے محروم ہر طبقہ کے ضرورت مندوں کو حق و انصاف دلائے جانے تک جا ری رہے گی ۔کیونکہ ہمارا نعرہ ہی ہی کہ :ایکتا کا راج چلے گا مسلم ہندو ساتھ چلے گامذکورہ باتیں راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر جناب مولانا عامر رشادی مدنی نے احمد آباد میں ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہیں۔انھوں نے کہا کہ حصول آزادی کے بعد مسلمانوں کا جو استحصال ہوا ہے وہ کانگریس کی منظم سازش کا نتیجہ ہے ،کانگریس نے اقلیت اور تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو خوف زدہ کر کے انھیں نفسیاتی طور پر غلام بنا ڈالا۔نتیجہ کے طور پر یہ طبقہ بنیادی سہولیات، ترقی اور سماج کی اصل دھارا سے دور حاشیہ پر کھڑا اپنی قسمت کو رو رہا ہے ۔تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی حصہ داری ماقبل آزادی ۳۷ ؍فیصد تھی جو آج ایک فیصد سے کم ہے ۔زمین داری کرنے والی قوم آج کاشت کاری بھی نہیں کر پا رہی ہے ۔اس کا ذمہ دار کون ہے ؟کانگریس نے تحفظ کے نام پر ستر سال تک ہمارا ووٹ لیا اور بدلے میں ہمیں کنیا کماری سے لے کر کشمیر تک صرف دنگے اور فساد دئے۔خود فرقہ پرست تنظیموں کو مضبوط کیا اور ان کا خوف دکھا کر مسلمانوں کو ووت بینک کے طور پر استعمال کیا مگر ان کی ترویج و ترقی کے لئے کچھ نہیں کیا۔جب مسلم نوجوان تعلیم کی طرف آگے بڑھنے لگے تو انھیں ایک سازش کے تحت دہشت گردی کا فرضی الزام لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ۔فرضی انکاؤنٹر کے نام پر انھیں قتل کیا جاتا رہا۔یہ سب زیادہ تر کانگریس کے دور اقتدار میں ہوا۔آج بھی اقتدار سے دورہونے کے باوجود بھی کانگریس مسلمانوں کے اصل اور بنیادی مسائل کو لیکر سنجیدہ نظر نہیں آتی۔اسے آج بھی مسلمانوں کا ووٹ سیکولرزم کے تحفظ اور فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے نام پر ہی چاہئے نہ کہ مسلم سماج کی ترقی اور بہبود نیزان کا بھلا کر نے کے نام پر چاہئے۔گجرات انتخاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ گجرات کے مسلمانوں نے ہمیشہ متحد ہوکر کانگریس کو ووٹ دیا مگر بدلے میں کانگریس عام مسلمانوں کو تو چھوڑےئے احسان جعفری مرحوم کی بھی حفاظت نہیں کر پائی ۔کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اور ان کی پوری ٹیم جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل نیز الپیش ٹھاکر سے ملنے اور ان کو منانے کے لئے ہر شرط پر تیار ہیں۔لیکن راہل جی کے پاس ذکیہ جعفری اور دیگر مسلم رہنماؤں سے ملنے اور ان کے مسائل کو سمجھنے اور بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔کانگریس کے گجرات ریاست کے صدر بھارت سنگھ سولنکی بھاجپاکی زبان بولتے ہوئے ایودھیامیں رام مندر بنوانے کی تو بات کرتے ہیں مگر گجرات فسادکے شکار تباہ حال اور بے گھر مسلمانوں کے لئے گھر بنوانے کی بات قطعی نہیں کرتے۔کانگریس بتائے کہ کیا وہ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں انھیں اٹھارہ ٹکٹ دینے کو تیار ہے؟گجراتی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لئے کانگریس کا کیا لائحہ عمل ہے؟کانگریس کو مسلمانوں کا ووٹ لینے سے پہلے ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔کیوں کہ مسلمانوں نے ہمیشہ کانگریس کا ساتھ دیا ہے لہٰذا سوال تو اسی سے ہوگا۔اب وہ دن گئے جب مسلمان اپنے جان و مال کے تحفظ اورفرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے نام پر ووٹ دے گا ۔اب وہ اپنے بنیادی مسائل کے حل کو لیکر ووٹ دے گا اور سوال کرے گا۔بھاجپا پربولتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے ہمیں ویسے بھی کوئی امید نہیں رہی ہے کیونکہ ہم نے بھاجپا پر کبھی اعتماد ہی نہیں کیا اور نہ ہی اسے کبھی ووٹ دیا۔لیکن مرکز میں بھاجپا کی سرکار بننے کے بعد نریندر مودی نے’’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس ‘‘کا نعرہ بھی دیا تھا۔ایسے میں کیا بھاجپا گجرات میں اپنے اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کوتیار ہے؟نریدر مودی نے اتر پردیش میں جس طرح سے چھوٹی علاقائی پارٹیوں کو اپنے اتحاد میں شامل کیا تھا اور انھیں حصہ داری دی تھی تو کیا اسی طرح گجرات میں مسلمانوں کو حصہ داری وبھاگیداری دینے کو تیار ہیں ؟اگر بھاجپا مسلمانوں کو حصہ داری دیتی ہے تبھی ’’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس ‘‘کا نعرہ سچ ثابت ہوسکے گا ۔ورنہ کانگریس کی طرح اس کے وعدے بھی کاغذ کے شیر ہی ثابت ہوں گے اور دیر سویر بھاجپا کا وہی حال ہوگا جو آج کانگریس کا ہے ۔ان حالات میں گجرات اسمبلی کا یہ عام انتخاب ملکی سیاست کا مستقبل طے کرے گا ۔جہاں ایک طرف گجرات میں بھاجپا کا مفروضہ وکاس ہے ،جس کے نام پر ہی وہ مرکز میں اقتدار تک پہونچی ہے ۔تو اسی طرح کانگریس کا بھی دکھاوا مسلم پریم ہے جس کے نام پر تقریباً ساٹھ سال کانگریس نے راج کیا ہے ۔ملک کی عوام اب سیاسی طور پر بیدار ہوتی جارہی ہے ۔اگراقتدار کے یہ سوداگر ہماری باتوں اور اصل مسئلوں پر توجہ نہیں دیں گے اور گجرات کی مسلم اقلیت ،استحصال کے شکار دبے کچلے لوگوں اور سرکاری سہولیات سے یکسر محروم طبقات اور دلتوں کی فلاح وبہبود اور ترقی کو مُدعا نہیں بنائیں گے تو راشٹریہ علماء کونسل ہم خیال جماعتوں کو ساتھ لے کر ایک سیاسی متبادل ببنے کو مجبور ہوگی جس کی ساری ذمہ داری ان دونوں سیاسی جماعتوں کی ہوگی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں