تازہ ترین

ہفتہ، 4 نومبر، 2017

روہنگیاپٹیشن --قانونی بصیرت


روہنگیاپٹیشن --قانونی بصیرت
ایم ودود ساجد
دہلی اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کے معاملہ کے مختلف پہلو ہیں۔مسلم قائدین سیاسی قائدین دانشوران اور علما وائمہ اپنے اپنے طورپران کے معاملات کو اٹھارہے ہیں۔لیکن چونکہ اب ان کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے اب سب سے بڑا معاملہ قانونی ہی ہے۔جتنی اچھی قانونی لڑائی لڑی جائے گی اتنے ہی اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔روہنگیا مسلمانوں کے بعض انفردای مدعیان کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک سے زائد پٹیشن دائر کی گئی ہیں۔ظاہر ہے کہ ان سب کا مقصدلٹے پٹے روہنگیا مسلمانوں کو راحت دلوانا ہی ہے۔
اس سلسلہ میں ایک پٹیشن سپریم کورٹ کے مشہور وکیل محمود پراچہ نے بھی دائر کی ہے۔ان کی پٹیشن کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں نے جو پٹیشن دائر کر رکھی ہیں وہ محمود پراچہ کی پٹیشن سے بہت مختلف ہیں۔دوسروں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ حکومت کو ہدایت دی جائے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ان کے ملک واپس (DEPORT) نہ کیا جائے۔جبکہ محمود پراچہ نے سپریم کورٹ سے براہ راست ایسی کوئی یا صرف اسی طرح کی استدعا نہیں کی ہے۔میں نے پراچہ صاحب سے پوچھا کہ ایسے میں کہ جب دوسرے لوگ روہنگیائی خانماں برباد لوگوں کو ملک بدری سے بچانا چاہتے ہیں آپ دوسرے نکات اٹھاکرکیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
محمود پراچہ کہتے ہیں کہ قانونی معاملات میں اور خاص طورپر زیربحث قسم کے معاملات میں قلیل مدتی فائدوں پر نظر نہیں رکھنی چاہئے۔بلکہ ایسے معاملات میں طویل مدتی اور کثیر جہتی فائدہ پیش نظر رہنا چاہئے۔انہوں نے اپنی پٹیشن میں بتایا ہے کہ Foriegners Act 1946 ناجائز طورپرمقیم غیر ملکی شہریوں کو ملک سے نکالنے کیلئے حکام کو اختیار دیتا ہے۔مگر اس کا باقاعدہ ایک ضابطہ ہے جس کی دوشقیں ہیں۔
(1)ناجائز طورپرمقیم جن غیر ملکی شہریوں کے پاس جائز سفری دستاویزات/پاسپورٹ وغیرہ موجود ہوں ان کوDeportکرنے کیلئے فوری طورپر ضروری ایکشن لیا جائے گا۔
(2)لیکن جن ناجائز طورپرمقیم غیر ملکی شہریوں کے پاس جائزسفری دستاویزات/پاسپورٹ وغیرہ نہ ہوں ان کوملک بدرکرنے سے پہلے ضروری ہوگا کہ ان کے متعلقہ ملکوں کے سفارتخانوں سے ان کے ضروری سفری دستاویزات حاصل کئے جائیں۔اگر ضروری ہوتوان سفارتخانوں کو قانونی مشاورتی تعاون بھی فراہم کیا جائے گا تاکہ متعلقہ افرادکی شہریت کی تصدیق کی جاسکے۔انہوں نے اس پٹیشن میں یہ بھی بتایا کہ غیر قانونی طورپرمقیم بنگلہ دیشی شہریوں کا پتہ لگانے اور انہیں ملک بدر کرنے کے معاملہ میں بھی ایک نظر ثانی شدہ طریقہ کارریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو نومبر 2009میں جاری کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ آسام وغیرہ میں بنگلہ دیشی شہریوں کے بعض معاملات بھی محمود پراچہ ہی دیکھ رہے ہیں۔
مذکورہ پٹیشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارہ نے میانمارکی ریاست رکھائن اور دوسرے علاقوں میں اکتوبر2016میں مبینہ روہنگیائی سخت گیر عناصر کے حملوں کے بعدروہنگیا مسلمانوں پر برمی فوجیو کے ظلم وستم کے واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے جس میں بڑے پیمانے پر آگ زنی قتل وغارت گری منظم طورپرعصمت دری اور جنسی تشدد کے دوسرے واقعات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔اقوام متحدہ نے اس کریک ڈاؤن میں ایک ہزارسے زائدروہنگیاؤں کے قتل کا اندازہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح عدالت کو بتایا گیا کہ روہنگیا کے مسلمانوں کو ملک بدر کرنااقوام متحدہ کے انٹر نیشنل کنونشن برائے شہری اور سیاسی حقوق کے آرٹیکل 7کی صریح خلاف ورزی ہوگی جس کی رو سے حکومتوں کو ایسے فردیا افرادکو دوسرے ملک سے تحویل میں لینایااپنے ملک سے کسی ایسے ملک کو بالجبر بھیجناممنوع ہے جہاں یہ یقین کرنے کے مضبوط شواہد موجود ہوں کہ فرد یا افراد کو ناقابل تلافی نقصان کا شدید خطرہ ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک طرف جہاں عالمی قوانین کے مطابق کسی ملک کو غیر ملکی شہریوں کو باہر نکالنے کا حق حاصل ہے وہیں دوسری طرف کسی کو Deportکرنے کیلئے ضروری ہے کہ متعلقہ ملک ان شہریوں کی شہریت کو تسلیم بھی کرے۔چونکہ میانمار روہنگیائی مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم ہی نہیں کرتا تو ہندوستانی حکومت کے لئے یہ ناممکن ہے کہ ان بدحال لوگوں کو Deport کرے۔لہذا وزارت داخلہ کا8اگست2017کا وہ ہدایت نامہ ناقابل عمل اور غیرقانونی ہے جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو Deportکرنے کی بات کہی گئی ہے۔
محمود پراچہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور کنونشن کی رو سے ہندوستان کا ادارہFRROاس کا پابند ہے کہ اگر حکومت میانمار روہنگیاؤں کو واپس لینے کو تیار نہ ہو تو انہیں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین کی معرفت باضابطہ طورپردوسرے ملکوں کو پناہ گزینی کی درخواست دینے کے عمل میں تعاون فراہم کرے۔اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ انہیں ملک سے نکالنے کا نہیں ہے۔
پراچہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے دوسروں کی پٹیشنوں کی سماعت کے دوران توازن قائم رکھنے کا جو اشارہ دیا ہے اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔عدالت سے ان کے حق میں حکم حاصل کرکے بھی شکست ہاتھ لگے گی۔اس لئے کہ ایک طرف تو انہیں زندگی گزارنے کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی لازمی سہولت نہیں دی جارہی ہے دوسری طرف پولس ان کا جینا حرام کردے گی۔ایسے میں روہنگیامسلمانوں کا مستقل حل وہ نہیں ہے جس کی کوشش ہورہی ہے بلکہ اس سلسلہ میں وضع کئے گئے اقوام متحدہ اور خود ہندوستان کے قوانین پرعمل کرنے میں ہی اس کا مستقل حل پوشیدہ ہے۔
اسی لئے پراچہ صاحب نے اپنی پٹیشن میں وزارت داخلہ وزارت خارجہ فارنرس ریجنل رجسٹریشن آفس اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزیں اور قومی حقوق انسانی کمیشن کو فریق بنایا ہے۔پٹیشن میں کلیدی طورپرعدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ (1)فوری طورپرحکومت کا سرکلرمنسوخ کیا جائے۔(2)حکومت کو ہدایت دی جائے کہ انہیں اس وقت تک ملک بدر نہ کیا جائے جب تک FRROاوراقوام متحدہ کا کمیشن برائے پناہ گزیں انہیں کسی تیسرے ملک میں باعزت بسنے کا انتظام نہ کردیں۔(3)وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو ہدایت دی جائے کہ وہ مذکورہ دونوں اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور اس عمل کو جلد پوراکرائیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ 'بنگلہ دیشی' اور دہشت گردی جیسے اشوز پر متاثرین کی بھاری بھرکم مددکرنے والی مسلم تنظیمیں محمود پراچہ جیسے وکلاء کی ایک ٹیم بناکر اجتماعی طورپر باہمی صلاح ومشورہ سے قانونی جنگ لڑیں۔تاکہ انہیں وقتی اور چھوٹے فائدہ کی بجائے مستقل اور بڑا فائدہ حاصل ہو۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad