مسلسل بیداری کی ضرورت
وقتی غفلت بھی بڑا نقصان کرسکتی ہے
ازقلم :حبیب الرحمن الاعظمی ابراہیم پوری فاضل دارالعلوم دیوبند
استاذ تفسیر وحدیث جامعۃ الزاہدات /اتراری خیرآبادضلع مئو (یوپی)
آج ایک بار پھر امت مسلمہ بیدار ہوتے ہوتے سوگئی. اور اب دوبارہ مدہوشی کے ساتھ محو خواب ہورہی ہے .شاید حالات اسے جگارہے ہیں اور یہ حالات کی سنگینی کے علم اور مستقبل کے خطرات کے باوجود مبتلائے خواب غفلت ہے کیسے یہ چند ہی دنوں میں اپنی اجتماعیت کو فراموش کر بیٹھی اور اپنے اعمال وکردار کی درستگی کی فکر کے بجائے ہواؤں کے ستم پر تکیہ کرلیا .کتنی جلد یہ اپنے ان مظلوم برمی مسلمان بھائ بہنوں کو بھول گئ جن پر تا حال زمین تنگ اور زندگی موت سے بدتر ہے .جن کے لاکھوں پناہ گزیں آب ودانہ کے متلاشی اور لباس و دوا کے سخت محتاج ہیں .جن کے ہزاروں افراد تلواروں کی نوک پر لقمہ اجل بن گئے اور جن کی سیکڑوں بستیاں نذر آتش کردی گئیں .آج بھی وہ اسی مظلومیت ومقہوریت کے سائے تلے اپنی بے بسی کے آنسو بہارہے ہیں اور عالم اسلام سمیت دنیا خاموش ہے.جب تک مدتوں بعد میڈیا نے اسے مسئلہ بنا کر پیش کیا تب تک ان کے حق کی صرف بازگشت سنائی دیتی رہی .اور عالمی میڈیا کی بے توجہی یاخاموشی کے بعد امت مسلمہ نے بھی اس حساس ترین مسئلہ سے اپنی آنکھیں ایسے موند لیں جیسے اسے کچھ خبر نہ ہو یا کچھ ہوا نہ ہو یا سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہو.جب کہ برمی روہنگیائی مسلم آج بھی اسی طرح حالات سے نبرد آزما اور طوفانی موجوں کے بیچ ہیں جیسے کل تھے .اور اب بھی ان کو تحفظ استحکام تعاون اور نوآبادی کے ساتھ زندگی کی بنیادی ضروریات رسد وخوراک اور دواعلاج کی سخت حاجات ہیں .کون ان کی دادرسی اور تعاون کرے گا .یہ امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور اگر امت نے وحدت کے ساتھ اس عمل کو انجام نہ دیا تو مستقبل کا بس اللہ ہی حافظ ہے .ظالم کو ظلم سے باز رکھنا اور مظلوم کی حفاظت ونصرت کرنا قوم کا ملی فریضہ ہے جو برمی مسلمانوں کے تعلق سے نا پید نظر آرہا ہے اور یہ امت کی انتہائ زبوں حالی کی دلیل ہے .حالات اس بات کی نشان دہی کررہے ہیں کہ مستقبل میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے زیادہ سازشیں اور فتنے رونما ہوں گے اور جو فی الحال ہیں وہی بہت عجیب ہیں جنہوں نے ایمان واسلام پر بالواسطہ وبلاواسطہ اثر ڈال رکھا ہے اور داخلی وخارجی اعتبار سے بحیثیت مجموعی اضطراب وبے چینی ، انتشار و انارکی کی کیفیت ہے .جہاں سکون وطمانیت عنقاء ہوچکے ہیں اور رحمت الہی روٹھ چکی ہے .ایسے حالات میں توبہ واستغفار کے ساتھ اعمال صالحہ کی اور اسلاف کی روش اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے .اور دین کی نصرت ، کلمہ حق کی سربلندی ، دعوت دین ، اور عقائد وایمان کے تحفظ کے ساتھ شریعت مطہرہ کے احکام پر عمل اور سنتوں سے زندگی کو مزین ومعطر کرنے کی ضرورت ہے .اسی کے ساتھ وحدت امت کے لیے ، اور اجتماعی مسائل کو اجتماعی قوت سے حل کرنے اور حالات کی سنگینی اور سازشوں سے ٹکرانے کے لیے مستقل لائحہ عمل اور مضبوط حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے .اللہ ہمارا حامی و ناصر ہے ،حسبنا اللہ ونعم الوکیل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں