نوٹ بندی والے دنوں کے قصّے!
از:محمد عباس دھالیوال،مالیرکوٹلہ،پنجاب
نس بندی ،شراب بندی ،ناکہ بندی ،گھیرا بندی ،جنگ بندی اورسحرہ بندی بارے میں اکثر سنتے آئے تھے۔لیکن گزشتہ سال ۸نومبر کی رات آٹھ بجے ہمارے عزت مآب وزیر اعظم نے جب ٹی ۔وی پر قوم سے خطاب کے دوران اہل وطن پر ایک سرجیکل اسٹرائیک کے انداز میں نوٹ بندی کرنے کا اعلان کیا ،تو جیسے ملک کے ہر عام وخاص کو مانو ایک زور کا جھٹکا دھیرے سے لگا اور جھٹکا بھی ایسا لگا،رات تو جیسے تیسے کاٹ لی ، لیکن اس جھٹکے کا احساس ہمیں نوٹ بندی کی پہلی صبح تب ہوا جب ہم نے دودھ والے سے مہینہ کا حساب کرتے ہوئے اس کے ہاتھ میں پانچ پانچ سو کے چار نوٹ تھمائے ،تو اس نے ہمیں ایسے سوالیہ اور حیران کن نظروں سے گھور کر دیکھا ، مانو ہم نے اسکو جعلی نوٹ پکڑا د یئے ہوں،اوراس نے نہایت بے چارگی سے کہا ’’ بابو جی ۔۔اب یہ نوٹ نہیں چلیں گے‘‘ہم نے سمجھانے کے انداز میں کہا ،’’نہیں بھائی ابھی تو یہ پچاس دن تک چلیں گے ‘‘اسطرح بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر ہم نے اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی والے پیسوں کو اسے لینے کیلئے رضا مند کیااور مانو اس نے بھی من پر بھاری پتھر رکھتے ہوئے بڑے دل برداشتہ ہو کر ان نوٹوں کو اپنے گلہّ میں رکھ لیا۔
اس کے بعد جیسے دن نکلا توایک طرح سے ہماری آزمائیشوں کا دور شروع ہوگیا،اسی طرح جب صبح دس بجے کے قریب محلے میں ایک سبزی والا آیا تو ہماری ہوم منسٹر یعنی ہماری اکلوتی بیوی نے سبزی لینے کی غرض سے اسے روکا،اور مختلف سبزیوں کی قیمت دریافت کرنے کے بے بعد جب مسٹر بینگن ،محترمہ بھنڈیمیاں آلو شریف وغیرہ کو یک بعد دیگر تولنے کی غرض سے نکالنا شروع کیا توپھیری والے فوراً حکم صادر کرنے کے انداز میں کہا ’’بہن جی سبزی جتنا دل چاہے لیں ،لیکن میں آپ سے ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ کے نوٹ ہرگز نہیں لونگا۔۔۔!‘‘لیکن ہماری محترمہ کے ہاتھ میں تھا ہی ہزار کا واحد نوٹ۔۔جس پر نظر پڑتے ہی بیچارہ پھیری والا ایسے دوڑا جیسے اینٹ کو دیکھ کر کتاّ بھاگتا ہے اور میری بیگم کے پاس پیسے ہوتے ہوئے بھی اس کے سبزیاں لینے تمام ارماں گویا آنسوؤں میں بہہ گئے۔
ہمارے بچے جو کہ ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں اور جنکی فیس گزشتہ دو مہینوں سے نہیں بھری جا سکی تھی ،ہم نے سوچا چلوہزار ہزار کے پانچ نوٹ تو ہم وہاں فیس ادا کرنے میں بہ آسانی چلا ہی دیں گے۔اسی ضمن میں جب ہم فیس جمع کروانے کے لیے سکول کے فیس کاوئنٹر پر پہنچے تو وہاں موجود خاتون کلرک نے ہمارا نہایت خندہ پیشانی سے سواگت کیا،لیکن جیسے ہی ہم نے فیس کارڈ کے ساتھ ہزار ہزارکے پانچ نوٹ کاؤنٹر پر رکھے ، تو ان محترمہ نے اپنے لبوں پہ ایک کھسیانی سی ہنسی بکھیرتے ہوئے ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ’’سر معذرت کے ساتھ آپ سے درخواست ہے کہ ہم اب ۱۰۰۰ یا ۵۰۰ سو کے نوٹ نہیں لے سکتے ‘‘اور ہم بنا کسی بحث مباحثہ میں نہایت مایوسی کے ساتھ کاؤنٹر پر سیفیس کارڈاور نوٹ اٹھانے کے بعد بہت بھاری قدموں و دکھی دل کے ساتھ سکول کے گیٹ سے ایسے باہر نکلے جیسے کہ چچا غالب نے اپنے ایک شعر میں اپنے محبوب کے کوچے سے نکلنے کا ذکر کیا ہے کہ
نکلنا خلد سے سنتے آئے تھے حضرتِ آدم کا
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
اسی بیچ ہم نے سوچا چلو اے ٹی ایم سے کچھ نقدی نکلو ا لیتے ہیں۔جیسے ہی ہم نے اے ٹی ایم کا رخ کیا تو شہر کے بیشتر اے ٹی ایم کو بند پایا۔لیکن جس اے ٹی ایم کو کھلا دیکھا اسکے باہر اتنی لمبی لائین کہ اللہ توبہ ۔۔۔چنانچہ ہم بھی اپنے ارادوں کو پختہ کرتے ہوئے لائین میں کھڑے ہو گئے ،یہاں تک کہ لائین میں لگے ہمیں شام پڑگئی ۔اس سے پہلے کہ ہماری اے ٹی ایم تک رسائی ہوتی،کیش ختم ہو گیا اور ہم دل برداشتہ ہو کر بڑی مشکل سے گھر پہنچے۔
رات کو ہم سونے سے پہلے فیصلہ کیا کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی بینک جائیں گے۔چنانچہ ہم نے صبح نہار منھ ہی بینک کا رخ کیا۔جب بینک کے باہر کا نظارہ کیاتو کلیجہ منھ کو آنے لگااور دل کی دھڑکنیں قابوسے باہر ہونے لگیں۔کیونکہ لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں پہلے ہی بینک کے باہر موجود تھیں،کچھ لحاف اوڑھے جبکہ کچھ بھاری بھرکم کمبلوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے اورلیٹے ہوئے نظر آئے۔۔۔جب اس ضمن میں ہم نے معلومات طلب کی تو لوگوں نے بتایا کہ ہم تو لوگ تو آدھی رات سے ہی یہاں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔مرتے کیا نہ کرتے چنانچہ ہم ان کے لائین میں کھڑے ہو گئے ۔۔لیکن بینک تو اپنے مقررہ وقت یعنی صبح دس بجے ہی کھلا۔بینک کے کھلتے ہی بینک کے اندر گھسنے کے لیے لوگ ایسے جدو جہد کرنے لگے معنوں بینک میں داخل ہونے کایہ زندگی کا آخری موقع ہو۔چنانچہ ہم بھی لمبی جدوجہد اور مشقت کے بعدبینک میں اینٹری کرنے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن اندر ہر کیش کاؤنٹر کے سامنے بلا کسی غریب وامیر کے امتیاز سے تین تین چار لائینوں میں لوگوں کو دیکھ ہمارا دل گھبرانے لگا ۔لیکن جلد ہی ہم بھی اپنے دل کو طفلی تسلیاّ دیتے ، آل از ویل۔۔آل از ویل کہتے آخر کار ایک لائین میں لگ گئے۔ اور ذہن میں یہ شعر گردش کرنے لگا کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا ،نہ کوئی بندی نواز
لیکن ابھی دپہر کے بارہ بھی نہ بجے ہونگے کہ خازن کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ کیش ختم ہو گیا ہے۔لیکن جسے اپنے کھاتوں میں پیسے جمع کروانے ہوں وہ لائین میں لگے رہیں۔آخر ہم اپنے وجود کو سمیٹتے ہوئے بھرے من کے ساتھ بینک سے باہر آگئے۔
ہمارا بیٹا روز بس سے تقریباً ۷۰ کلومیٹر کی مسافت طے کرتے ہوئے اپنے انجنئیر نگ کالج جاتا ہے۔چنانچہ ہم نے ایک منصوبہ کے تحت اسے ۱۰۰ کے ساتھ ساتھ ہزار کے دو نوٹ تھماتے ہوئے کہا ’’بس کنڈکٹر سے آتے جاتے وقت اسکا چھٹا کروا لانا۔‘‘شام کو بیٹے نے ۱۰۰۰ کے نوٹ ہمیں جیوں تیوں پکڑاتے ہوئے کہا ’’ابو ۔۔ بس کنڈکٹر نے بس میں سوار ہوتے ہی وارننگ دے دی کہ جن کے پاس صرف ہزار یا پانچ سو کے نوٹ ہوں تو وہ براہ کرم بس سے نیچے اتر جائیں۔بس میں ہم سے چھٹا مانگ کر ہمیں شرمندہ نہ کریں۔‘‘
شام کو ہمیں ایک دوست نے بس سٹینڈ میں پیش آنے والا تازہ واقع سنایا،ہوا یوں کہ صبح صبح بس اسٹینڈ کے بیت الخلاء میں اپنی حاجت سے فارغ ہونے کی نیت سے ایک مسافر آنے لگا کہ گیٹ پر بیٹھے کیپر نے اسے پہلے ہی روک لیااور اندرجانے سے قبل پیشگی ادائیگی کرنے کو کہا کہ تو مسافر نے نہایت بے بسی کی حالت میں کہا کہ بھائی کیش میں تو ہزار اور پانچ سو کے علاوہ کوئی چھوٹا نوٹ نہیں ہے ،ہاں البتہ ۔۔میرے پاس چیک بک ہے کہو تو اس میں سے آپ کو پانچ روپے کی پیمنٹ کا سیلف کا چیک کاٹ دیتا ہوں،لیکن اس پر گیٹ کیپر نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ’’ بھائی جب تک چیک کلیئرہو کر نہیں آتا میں آپ کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا ،کیونکہ مجھے بیت الخلاء کے ٹھیکیدار کی طرف سے سخت ہدایات ہیں‘‘اس سے پہلے کہ مسافر کیپر سے مزید بحث کرتا ،اس بیچارے جنگل اور پانی وہیں کا وہیں ہوگیا۔!
ایک روز ہم نے جو بازار کا رخ کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سبھی چھوٹی بڑی دکانوں پہ بورڈ چسپاں کر دیئے گئے کہ پانچ سو اور ہزار کا نوٹ یہاں کیش کی صورت میں نہیں لیا جائے گا۔اسی دوران ایک دپہر ہم اپنے ایک فیکٹری والے دوست سے ملنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ فیکٹری میں تنہے تنہا منھ لٹکائے اداس بیٹھا ہے ،جب وہاں کوئی بھی مزدور ہمیں کام کرتا دیکھائی نہ دیا تو ہم نے کہا بھیا آج نہ تو دیوالی ہے اور نہ ہولی پھر فیکٹری میں مزدوروں کوچھٹی کس خوشی میں دے رکھی ہے،تودوست نے نہایت دکھی لہجہ میں کہا’’بھیا چھٹی کہاں ۔۔! سبھی مزدوروں کو الگ الگ بینکوں میں چار چار ہزار نوٹ بدلی کرنے کو بھیجا ہوا ہے ہفتہ سے فیکٹری میں کوئی کام نہیں بلکہ یہی نوٹوں کی ادلہ بدلی والا کام چل رہاہے ۔۔یار اس نوٹ بندی نے ہمیں ذلیل کر کے رکھ دیا ہے‘‘
اس نوٹ بندی کے چلتے ہمارے محلہ میں ایک شادی اپنی ایک نئی تاریخ لکھ گئی ،ہوا یوں کہ محلہ کی ایک لڑکی کی شادی شہر کے ایک دوسرے علاقہ میں رہنے والے لڑکا سے ہونا طے پائی اور دعوت نامے وغیرہ سب تقسیم ہو چکے تھے ،لیکن شادی کے عین ایک ہفتہ قبل راتو رات ہوئے نوٹ بندی کے اعلان نے مانو لڑکا لڑکی کے دھوم دھام اور تام جھام سے شادی کرنے کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔کیونکہ شادی پر خرچ کرنے کے سلسلہ میں جو بھی نقدی نکلوار کرکھی تھی سب کی سب بیکار ہوگئی اور جب لاکھ دوڑ دھوپ کرنے کے باوجود بھی کہیں سے نقدی کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو پایا تو دونوں رشتہ داروں کے بیچ باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ چائے کا کپ پلا کر لڑکی کی وداعی کر دی جائے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔۔شاید اسے ہی کہتے ہیں کہ ’’ہنگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے۔‘‘
نوٹ بندی کے دو تین مہینوں بعد ہمارے ایک دوست کو اسکی بہن کا فون آیا ۔اس نے بھائی سے نہایت رازدارانہ انداز میں پوچھا ’’بھیا میری الماری کے ایک کونے میں چھپے ہزار ہزار کے دو ں نوٹ ملے ہیں کیا اب وہ بدلے جا سکتے ہیں‘‘۔دوست نے بہناں کو کہا ’’آپا اب انکے بدلنے کا خیال اپنے دل سے نکال دو بس انکے لیے آپ اناّ ناللہ ہی راجیعون ہی پڑھ ڈالو۔سمجھو اسی میں خیر و عافیت ہے۔‘‘
نوٹ بندی کے ان پچاس دنوں کے بیچ بہت سے محاورے پریکٹیکل ہوتے دیکھے گئے ،۔۔جیسے باپ بڑا نہ بھیا ،سب سے بڑا روپیہ۔۔اور ایک بہت مشہور محاورہ نو دو گیارہ ہوجانا تو ہم نے اپنی آنکھوں سے سچ ہوتا دیکھا،ہوا یوں کہ جب ہمارے گھر میں ایک سوالی آیا تو ہماری بیگم نے پہلی بار اپنے دماغ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ۔سوالی یعنی کہ بھکاری کو پانچ سو کا نوٹ پیش کرتے ہوئے نہایت موئدآبانہ انداز میں کہاکہ’’ سوالی بھیا یہ لو پانچ سو روپے آپ اسمیں سے سو روپیہ نذرانہ کے طور پر وصول کرتے ہوئے چار سو مجھے واپس کردیں‘‘،توسوالی پانچ سو کا نوٹ دیکھتے ہی وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ ایک اور مشہور محاورہ مکھیاں مارنا بھی ہم نے صادق ہوتا دیکھا ۔کیونکہ سردیوں کی وجہ سے مکھیوں کا تو قحط تھا ان دنوں اس لیئے بیشتر دکانداروں کو نوٹ بندی کے چلتے گراہک نہ ہونے کی صورت میں دکان میں نہ صرف مکھیوں بلکہ چوہواور چھپکلیوں کو بھی مارتے دیکھا گیا۔
سچ کہیں تو نوٹ بندی کے چلتے ان پچاس دنوں کے دوران ملک کا پو را نظام چر مرا سا گیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ ملک تھم سا گیا تھا ۔اوراس دوران جو دکھ ملک کے بیشتر غریب اور مڈل کلاس کے لوگوں نے سہے ہیں یا برداشت کیئے ہیں انکا احساس نہ تو کسی جھولے والے فقیر کو ہے اور نہ ہی کسی بڑے سرمائیدار کو ہو سکتا ہے کیا خوب کہا کہ
درد دل درد آشنا جانے
اور بے درد کوئی کیا جانے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں