ایس ڈی پی آئی کیرلا کی جانب سے انعقاد کئے گئے "بہوجن منیٹرا یاترا "میں لاکھوں افراد کی شرکت
فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف آواز اٹھانے میں کیرلا کی ایل ڈی ایفاور یو ڈی ایف ناکام۔ عبدالمجید فیضی
کالی کٹ (یواین اےنیوز27نومبر2017)سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) ریاست کیرلا شاخہ کی جانب سے گزشتہ 15نومبر تا24نومبر ریاست گیر سطح پر"بہوجن منیٹرا یاتر"کا انعقاد کیا گیا۔ یاترا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا تاکہ ریاست کے 14اضلاع کا احاطہ کیا جاسکے۔ شمالی زون میں ریاستی صدر عبدالمجید فیضی کی قیادت میں تروننداپورم سے آغاز ہوا جس کا افتتاح ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین کے ہاتھوں عمل میں آیا اور اسی طرح جنوبی زون میں ریاستی نائب صدر تلسی دھرن پالیکل کی قیادت میں کاسر گوڈ سے آغاز ہوا جس کا افتتاح ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری الیاس محمد تمبے کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 24نومبر کو بہوجن منیٹر ا یاترا کا اختتام کیرلا کے الاپوژا شہر میں منعقد عوامی اجلاس سے ہوا جس میں ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر اے سعید، قومی جنرل سکریٹری محمد شفیع، کرناٹک ریاستی صدر عبدالحنان ، تمل ناڈو ریاستی صدر دہلان باقوی نے خصوصی خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں بی جے پی فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعے عوام کو تقسیم کررہی ہے ۔ ان کو روکنے میں کیرلا کی ایل ڈی ایف قیادت والی سی پی آئی ایم حکومت اور یو ڈی ایف کی قیادت والی اپوزیشن پارٹی کانگریس بھی بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف آواز اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ الٹا یہ دونوں اتحادیں بھی ریاست کیرلا میں فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دے رہی ہیں۔ اسی طرح ملک کے دیگر ریاستوں میں مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات پر ہورہے حملوں کے خلاف کانگریس سمیت کوئی بھی پارٹی آواز نہیں اٹھارہی ہے۔ جس سے ملک میں ان طبقات کے درمیان عدم تحفظ اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ ملک کے عوام کے سامنے بی جے پی اور سنگھ پریوار کی نفرت کی سیاست کو اجاگر کرنے اور ان کو خوف وہراس سے نجات دلانے اور عوام میں حوصلہ پیدا کرنے کے لیے ایس ڈی پی آئی صرف ریاست کیرلا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کرنے والے فسطائی طاقتوں کے خلاف صف اول میں کھڑے ہوکر آواز اٹھاتی آرہی ہے ۔ایس ڈی پی آئی ریاست کیرلا شاخہ کے زیر اہتمام نکالے گئے بہوجن منیٹرا یاترا میں پارٹی ریاستی لیڈران نے ریاست کیرلا کے 14اضلاع میں 5ہزار سے زائد گاؤں اور 150سے زیادہ شہروں کا احاطہ کیا ۔ جس میں لاکھوں کے تعداد میں عوام اور پارٹی کارکنان شریک رہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں