مولانا عامر رشادی مدنی کا گجرات جانا مسلمانوں کے لئے خوش آئند
۲۰۰۸ میں اعظم گڑھ پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹنے کے بعد وجود میں آئی راشٹریہ علماء کونسل تقریبا ۹ سال سے غریب، مظلوم اور بے سہارا لوگوں کی بے لوث خدمت کر رہی ہے۔چاہے وہ آتنکواد کے نام پر بیقصور اٹھائے گئے نوجوانوں کا معاملہ ہویا کشی نگر سے لیکر بہار اورمدھیہ پردیش کے مظلوم کو انصاف دلانا ہو یا کہیں بھی کچھ ہو خبر ملتے ہی کونسل حق کی آواز بلند کرتے ہوئے سینہ سپر ہو جاتی ہے اور ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انصاف دلاتی ہے۔سبھی قارئین کو اعظم گڑھ کے ۲۰۰۸ کے حالات یادہی ہونگے کہ بڑی بڑی ملی تنظیمیں ،نام نہاد مسلم قائیدین اور سیکولر جماعتیں خاموش تھیں۔خط بھیجنے پربھی کوئی خط کا جواب دینا مناسب نہ سمجھتا تھا حتی کہ کسی نے بھی آتنکواد اور ضلع پر لگے داگ پر بولنے کی جرئات نہ کیا تو مجبوراعلماء کونسل نامی تنظیم بنی اور اسی ننظیم نے مدھیہ پردیش سے۴۲ سیمی کے نام پر گرفتاربے قصور نوجوانوں کو رہاکرایا اور آج تک قوم و ملت کی خدمت کرتی چلی آرہی ہے۔پچھلے دنوں لکھنؤ میں سیف اللہ انکاؤنٹر پر جو آواز کونسل نے اٹھائی کہ مجبورا یوگی سرکار کو مجسٹریٹی جانچ کا حکم جاری کرنا پڑا ۔ایک ہفتہ سے پھر اعظم گڑھ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کونسل پوری طاقت کے ساتھ اس مسئلے کو بھی لگاتار دیکھ رہی ہے ۔گجرات میں انتخاب قریب ہے ہر کوئی ہندو و پٹیل کی بات کررہا ہے مگر مسلمانوں کی کوئی نہیں ۔جبکہ کئی سال سے کونسل کے پاس سے وہاں کی مجبور ،مظلو م عوام کونسل کو آواز دے رہی تھی اور کونسل نے ان کی مدد بھی کی۔ انتخاب میں مسلمانوں کو ان کا حق دلانے اور ان کی حالت کو جاننے کے لئے کونسل نے پچھلے دنوں اپنا ایک وفد گجرات بھیج کر وہاں کے حالات کا جائزہ لیا ۔اور رپورٹ دینے کے بعد کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب گجرات کا دورہ کر ۲ دن پہلے ایک پریس کانفرنس کیئے اور وہاں کی سبھی پارٹیوں خاص کر کانگریس و بھاجپا سے مسلمانوں کے ریزرویشن کے حساب سے ۱۸ سیٹیں مسلمانوں کو دینے کی بات رکھی۔ایک بار پھر مولانا کے اس قدم سے سیاسی گلیاروں میں کھلبلی مچ گئی ۔گجرات عوام کی مانیں تو جو امیدوار مسلم بستی میں کئی دہائیوں سے آتے نہیں تھے وہ روزآنہ ایک دفعہ ضرور مسلم علاقعوں حاضری دیتے ہیں۔اور وہاں کی کمیوں ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔مولانا کے اس قدم سے کانگریس پارٹی بالکل سہم گئی ہے، کپل سبل سے لیکر اعلی لیڈران کو گجرات میں ہی کیمپ ڈلوا دیا ہے۔سیاسی دانشوروں کا کہنا ہے کہ گجرات انتخاب میں کبھی مسلمانوں کا ذکر ہی نا آتاتھا مگر دو دن سے سوشل میڈیا سے لیکر ٹی وی چینلوں پر گجرات مسلمانوں کی حالت اور انکے ساتھ ۷۰ سالوں سے ہو رہے دھوکے کا ذکر ضرور آتا ہے۔اور اگر اللہ نے چاہا تو مولانا کے اٹھائے گئے اس قدم سے مسلمان جو گجرات میں مجبور و مظلوم ہیں جن کا حق ۷۰ سالوں سے نہیں ملا ان کو ضرور راحت ملے گی۔جس طرح کونسل کا وجود غریبوں،مظلوموں ،بے سہاروں اور حق سے محروموں کے لئے خوش آئند ابھی تک چلا آرہاہے اسی طرح کونسل کے قومی صدر کا گجرات جانا یقیناًگجراتی مسلمانوں کے لئے خوش آئند ہوگا۔
نوٹ،مراسلہ نگارکی اپنی ذاتی رائے ہے،ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں