گجرات میں راشٹریہ علما ء کونسل کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں مولانا عامر رشادی کا سوال ؟کیا کانگریس ، سماجوادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اور دیگر سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کی ہمدرد ہیں ؟
تحریر : ذاکر حسین
مکرمی !سوشل میڈیا سائٹ فیس بک کے ذریعے خبر موصول ہوئی کہ راشٹریہ علما ء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے گجرات میں آج ایک پریس کانفرنس منعقد کی ،اور اخبار نویسیوں سے خطاب کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ گجر ات اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کوئی لیڈر یا سیاسی جماعت مسلمانوں کے تعلق سے بات کیوں نہیں کرتی ؟ مولانا موصوٖ ف کا سوال بالکل جائز زاور صحیح ہے ، ہم اس کی پوری تائید کرتے ہیں ۔ یہ صرف مولانا عامر رشادی سوال نہیں بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کا سوال ہے ۔ جی ہاں راقم سطور بھی کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں اور لیڈران سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے تعلق سے گفتگو کیوں نہیں ہو رہی ہے ؟ راہل گاندھی کیوں خاموش ہیں سیاست کی وادیوں میں مسلمانوں کے نام پر کیوں سناٹا پسرا ہے ۔ اگر اس بات پر غور کیا جائے تو سیدھا سا جوا ب یہ ملتاہیکہ مسلمانوں کی اپنی سیاسی حیثیت نہ ہونے کے سبب ایسا ہو رہاہے ۔ اسلئے مسلمانوں کو اپنی قیادت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔اگرجائزہ لیا جائے تو ملک کے مسلمانوں کی حالات ناگفتہ بہ ہے اور قوم کے ہر فرد کو قوم کو تباہی کے دلدل سے نکالنے کی کوششیں کرنی چاہئے!وطن عزیزمیں ملک کے مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی کی وجوہات پر ملک کے سیاسی اور سماجی گلیاروں میں اکثر بحث ہوتی رہتی ہے ۔لیکن تمام بحث مباحثے کے بعد بھی ایک طویل مدت سے ملک کے مسلمان پسماندگی کے دلدل میں غوطے لگا رہے ہیں۔ ملک کے بیشتر مسلم اکثریتی اور اقلیتی علاقے ایک طویل مدت سے اپنی بدحالی پر آنسوبہا رہے ہیں اوران کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے ۔ اگر ملک کے مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی کی چہار دیواری میں قید ہونے کی وجوہات پر غور کریں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے مسلمانوں کا ملک کی نام نہاد سیکولر جماعتوں پر اندھا اعتماد اوربغیر شرائط ان کی حمایت ہے ۔ ملک کے اقتدار پر ایک طویل عرصہ تک نام نہاد سیکولر جماعتیں برسرِ اقتدار رہیں ، لیکن مسلمانوں کے حالا ت بجائے سدھرنے کے دن بدن بگڑتے گئے اور اب حالات یہ ہیں ملک کے مسلمانوں کو روزی روٹی تو دور اپنے تحٖفظ کو لیکر ہمہ وقت فکر مندی میں مبتلا رہنا پڑتا ہے ۔آج کل ایک نئی بلا’بھیڑ قتل ‘ نے مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے ۔ اب تو حالات یہ ہیں کہ مسلم خاندان اپنے گھروں کے افراد کو گھر سے باہر بھیجتے ہوئے بھی ڈرنے لگا ہے ۔ تمام وجوہات اور ایشوز کے پسِ پردہ ایک سوال جو ہر وقت ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند طبقوں کے ذہن میں کلبلا رہاہے کہ’ بھیڑ قتل ‘کے خلاف ابھی تک مرکزی حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اتنا نرم رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں پتہ ہیک’بھیڑ قتل ‘ ایک منظم سازش کا حصہ ہے اور ملک کے ہر بالغ نظر کو اس بات کا علم ہیکہ’ بھیڑ قتل‘ میں پولس انتظامیہ آئین کی آئی پی سی کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کرنے سے قاصر رہتی ہے ۔ ۔اسلئے صرف ایک شخص نہیں بلکہ پوری بھیڑ مسلمانوں کو قتل کر رہی ہے ۔ ہمارا مرکزی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سے مطالبہ ہیکہ ’بھیڑ قتل کے خلاف پارلیمنٹ سے ایک بل پاس کیا جائے اور سخت قانون بنا کر’ بھیڑ قتل‘ کی منظم سازش میں ملوث افرادکے خلاف ٹھوس اور سخت کاروائی کی جائے۔ ہمارا سوال ملک کی حکومت سے یہ بھی ہیکہ کس بنیا د پر حکومت نے آرٹیکل ۳۴۱ پر مذہبی پابندی لگا کر مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کیا ۔ پورا معاملہ کیا ہے ، قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں۔ آئینی اصلاح کے نام پر ۱۹۲۷ میں سائمن کمیشن بھارت بھیجا۔لیکن سائمن کمیشن کوسیاہ جھنڈے اور سائمن واپس جاؤ کے نعروں کے ساتھ زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن بعد میں ۱۹۳۰ اورر ۱۹۳۲ کی گول میز کانفرنسوں میں انڈین نٰیشنل کانگریس کی زبردست مخالفت ور احتجاج کے باوجود کمیشن کی سفارشات کو منظور کر لیا گیا۔ ۔۔لیکن افسوس آئین ہند کے نفاذ کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ۱۰ اگست ۱۹۵۰ کو آرٹیکل۳۴۱کی ’’دفعہ ۱ ‘‘کا سہارا لیکر ملک کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے زریعے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروا یا کہ شیڈول کاسٹس سے متعلق لوگوں میں سے محض انہیں کو ریزرویشن اور دوسری مراعات حاصل ہونگی جو ہندو مذہب (سناتن دھرم) کو ماننے والا ہوگا اس کے علاوہ غیر ہندو دلتوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔ حکومتِ ہند کے اس غیر آئینی قدم کے خلاف سکھ سماج کے لوگوں میں بیداری نظر آئی اور سکھ سماج کے دلتوں نے زبردست تحریک اور احتجاج کے ذریعے حکومت ہند کو دو بارہ ریزرویشن دینے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور مسٹر نہرو کی قیادت والی سرکار نے۹۵۶ ۱ میںآئین (شیڈول کاسٹس)آرڈر۱۹۵۰ کے پیرا ۔۳ میں ترمیم کرکے ریزرویشن کی سہولت پانے کے لیے ہندو اور سکھ ہونا لازمی کر دیا۔لیکن افسوس خود کو سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی نے آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن سے محروم کر دیا ۔نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا گیا بلکہ آئین کے آرٹیکل ۱۴ کی بھی خلاف ورزی کی گئی ۔کیونکہ آارٹیکل ۱۴ کی رو سے مذہب و ملت ،ذات پات ،علاقہ ،رنگ و نسل سے قطع نظر ملک کے تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دیے گئے ہیں ۔اور ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی برٹش حکومت کے زریعے ملک کے اقلیتوں کو ریزرویشن کے نام پر جو مراعات حاصل تھیں اسے آزاد ہندوستان کی حکومت نے چھین لیا ۔پھر ۱۹۵۸ میںآئین میں ترمیم کراتے ہوئے یہ اضافہ کیا کہ جن ہندو دلتوں کے آباء و اجداد کبھی اسلام میں داخل ہو گئے تھے اگر وہ دوبارہ ہندو مذہب(سناتن دھرم) میں واپس آ جاتے ہیں تو انہیں ریزرویشن اور دیگر مراعات حاصل ہوں گی۔ واضح ہو کہ آئین ہند کی دفعہ ۳۴۰ ،۳۴۱ ۱ور۳۴۲ مٰٰیں کہیں بھی مذہب لفظ کا ذکر نہیں ہے۔حکومت سے ملک کے مسلمانوں کا ایک اور سوال ہیکہ حکومت بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی عدالتی تحقیقات سے منھ کیوں موڑ رہی ہے ؟واضح ہوکہ آئین ہندکی مروجہ کرمنل پروسیجر کوڈ(ضابطہ مجموعہ فوجداری )کی دفعہ 176کے مطابق کسی بھی پولس ٹکراؤ کی مجسٹریٹ جانچ کروانا لازمی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکوت مسلمانوں اور انصاف کا احترام نہ صحیح آئین ہند کا احترام کرتے ہوئے اس پولس آپریشن کی جانچ کرواتے ہوئے انصاف کو انصاف دلائے ۔ اربابِ اقتدار کاکہنا ہیکہ بٹلہ ہاؤس انکاؤ نٹر کی جوڈیشیل انکوائری سے دہلی پولس کا مورل ڈاؤن ہوگا ۔دوسرا اور اہم سوال ملک کی تاریخ کے صفحات مسلمانوں کے لہو سے رنگین ہیں ۔پہلے بھی مسلمانوں پر بے تحاشہ مظالم ہوئے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں لیکن اس ملک کی حکومتیں اور سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں پر ہو رہے ظلم کے خلاف کیوں کبھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے ؟چلئے اس سوال سوال کے پیچھے ایک جواز بنتا ہیکہ ملک کی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے اس لئے مسلمانوں پر ہورہے ظلم کے خلاف ٹھوس اقدام نہیں کئے کیونکہ وہ سب متعصب نظریے کے حامل تھے ۔ لیکن ان حکومتوں اور جماعتوں میں موجود مسلم رہنما اس وقت یا پھر ابھی ملک کے مسلمانوں کیلئے عملی طور پر کیوں نہیں کچھ کر رہے ہیں ۔ان سب باتوں اور تبصرے کے بعد ہم سب کے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہیکہ جب تک ملک کے مسلم سیاسی اور ملی رہنما متحد ہو کر خلوصِ دل سے مسلمانوں کے مسائل کیلئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے تب تک اس ملک میں مسلمانوں کا کچھ نہیں ہونے والا ہے ۔آیئے ہم سب ان نام نہاد سیکولر جماعتوں اور لیڈران سے امید رکھنے کے بجائے اب ملک کے مسلم رہنما ؤں کو متحد کرنے کی جانب اپنے قدم بڑھائیں۔مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہیکہ جب ان کی اپنی قیادت نہیں ہوگی تب ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ۔ غور کریں، مسلمانوں کے مسائل کیلئے ہمیشہ راشٹریہ علماء کونسل اور دیگر مسلم تنظیمیں آگے آتی ہیں ۔ لیکن ہم ووٹ کانگریس اور سیکولرزم کے نام پر دیگر جماعتوں کو دیتے ہیں۔دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری تو جمعتہ علماء ہند اور راشٹریہ علما ء کونسل ،مسلم نوجوانوں کے فرضی انکاؤنٹر کے خلاف راشٹریہ علما ء کونسل آوازا ٹھاتی ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے تمام مسائل کیلئے ہر وقت راشٹریہ راشٹریہ علما ء کونسل تیار رہتی ہے اورمسلمانوں کیلئے اپنی قربانیاں بھی پیش کرتی ہے ،توکیا ہمارا ووٹ سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی ، کانگریس اور دیگر مفاد پرست جماعتوں کو جانا چاہئے یا پھر راشٹریہ علما ء کونسل کو ۔۔غور کیجئے گااور ہاں اس باراتر پردیش انتخابات میں ووٹ دینے سے قبل خوب سوچ لیجئے گا۔۔۔
ذاکر حسین
الفلاح فرنٹ ، سیدھاسلطان پور ، اعظم گڑھ
ای میل ۔ hussainzakir650@gmail.com
نوٹ : الفلا فرنٹ سے جڑیں اور ساتھ مل کرمسلمانوں کی فلا ح و بہبود کیلئے کام کریں۔(ذاکر حسین )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں