تازہ ترین

ہفتہ، 25 نومبر، 2017

محمود سامی البارودی کی سوانح محمود سامی البارودی


محمود سامی البارودی کی سوانح محمود سامی البارودی
تحریر آبشارالدین خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنو‎
جدید عربی شاعری میں محمودسامی البارودی کا شمار بحیثیت امام کے ہوتا ہے ان کی پیدائش قاہرہ کے ایک علاقہ دمنہور کے ایک شریف اور امیر گھرانے میں1839ء میں ہوا اور ان کے والد محترم فوج میں ملازم تھے اور جب یہ سات سال کے ہوئے تو ان کے والد انہیں داغ مفارقت دےگئے اور ان کی پرورش کا بوجھ اپنے اہل وعیال کے ذمہ چھوڑگئےانہوں نے اپنی تعلیم زندگی کا سفر ابتدائ مدرسے سے کی جہاں انہوں نے حفظ قران کے ساتھ ساتھ صرف ونحو کی بنیادی تعلیم بھی حاصل کیا اور فقہ وتاریخ وحساب کو بھی پڑھا اور 1851 ابتدائي مدرسہ سے اپنی تعلیم مکمل کیا اور مدرسہ حربیہ سے1852ء متصل ہوئے اور اسی دوران انہیں شعروشاعری سے بھی دلچسپی پیداہوئی اور 1855ء میں وہاں سے نکلنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے اور اسی درمیان ان کی ملاقات اسماعیل خدیوی سے ہوئ تو اسماعیل خدیوی نے ان کو فوجی انتظامی امور کے منصب پرفائض کیا اور جب احمد عرابی باشا کی بغاوت میں شرکت کی تو انہیں تقریبا 17 سال کے لیئے سریلنکا میں جلاوطن رہنا پڑا اور اسی درمیان انگلش زبان بھی سیکھ لیا اور جب الخدیوی عباس الثانی کا دور آیا تو وہ مصر لوٹے اورسیاسی زندگی کو ترک کرکے ادبی زندگی کی طرف مائل ہوگئے اور اپنے گھر کو ادباء شعراء کے آنے مرکزبنادیا جہاں ادباء شعراء آتے اور ادبی پہلو پر بحث کرتے ان میں نمایانام شوقی‛ ابراہیم ‛اسماعیل بصری‛ مطران ان کا انتقال 1904ء میں ہوا 
باردوی کانمایا کام 
بارودی کا ایک شعری دیوان ہے جس کے دو جزہیں اور ان کے چار شعری مجموعہ ہے جسے مختارات بارودی کے نام سا تاہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad