مولانا محمو مدنی صاحب ایک بار پھر ہندستان کے سب سے زیادہ بااثر دیوبندی عالم منتخب
اردن کی نامور ریسرچ تنظیم آرآئی ایس ایس سی نے2018 کی تازہ فہرست جاری کی
نئی دہلی(یواین اےنیوز7نومبر2017) اردن کی نامور ریسرچ تنظیم آرآئی ایس ایس سی نے تازہ فہرست جاری کی ہے، جس میں مولانا محمود مدنی صاحب کو لگاتار نویں بار دنیا کی پچاس بااثرمسلم شخصیات میں شامل کیا ہے۔وہ ہندستان سے دیوبندی مسلک کے سب سے بااثر عالم دین اور مذہبی وسماجی رہنماء منتخب ہوئے ہیں ۔یہ یقیناًملت اسلامیہ ہند کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ عالم اسلام کی پچاس بااثر شخصیات میں ہندستان سے دو نام شامل ہیں اور دونوں عالم دین ہیں۔ مولانا مدنی کے علاوہ مشہور بریلوی عالم دین مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری اس فہرست میں 24؍ویں مقام پر ہیں ۔
مولانا محمود مدنی خانوادہ مدنی کے چشم وچراغ ہیں اور ہندستان کی اہم ملی جماعت جمعیۃ علماء ہند کے جنر ل سکریٹری ہیں۔بے مثال خوبیوں کے مالک اور نہ تھکنے والی جد وجہد کی وجہ سے وہ آج وہ ایک مقبول رہنماء بن گئے ہیں۔انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہداور دین اسلام کی پاسبانی کے لیے جو انتھک کوشش کی ہے، وہ یقیناًلائق ستائش ہے اور یہی وہ اسباب ہیں کہ ہزاروں کلو میٹر دوراردن میں واقع ایک ادارہ کی تحقیقی کمیٹی نے ان کو منتخب کیا ہے۔واضح ہو کہ سال 2017ء میں مولانا مدنی 39؍ویں نمبر پر تھے ، جب کہ اس بار وہ تین پائیدان اوپر 36؍ویں مقام پر آگئے ہیں ۔
مولانا محمو دمدنی کی مقبولیت کے چند اسباب کا جائزہ ذیل میں پیش خدمت ہے
۱۔قدرتی آفات و فساد متاثرین کی دادرسی:
سال ۲۰۰۲ء میں ہوئے بھیانک فساد کے بعد پچھلے پندرہ سالوں سے لگاتا ران فساد متاثرین کے لیے کام کرنا یہ ایک ریکارڈ ہے۔ فساد متاثرین یا قدرتی آفات متاثرین کے لیے مولانا محمود مدنی صاحب کی یہ سوچ ان کو دوسروں سے منفرد کرتی ہے کہ محض وقتی امداد اور راحت رسانی سے کسی کا دکھ ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کی بازآبادکاری اور ہر طرح کا تعاون پیش کرکے ہم ان درد کا مداوا کرسکتے ہیں اس سوچ کے مطابق عملی اقدام ہے کہ اپنی قیادت کے پچھلے ڈیرھ دہائیو ں میں جہاں بھی جمعےۃ نے انسانی خدمت کا بیڑا اٹھا یا، وہاں اس وقت تک قائم رہی جب تک کہ متاثرین دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز نہ کرسکیں۔ یہی معاملہ آسام فساد متاثرین، مظفرنگر فساد متاثرین، کشمیر سیلاب متاثرین اور چنئی سیلاب متاثرین کے ساتھ جاری ہے۔ان تمام جگہوں پر مولانا محمود مدنی کی جد وجہد آج تک جاری ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ گجرات میں بازآبادکاری کے عمل کے ساتھ ساتھ سال2004میں سنامی متاثرین کے لیے مدراس و سواحل میں بازآبادکاری،2005ء میں کشمیر زلزلہ متاثرین، 2008میں بہار وبنگال سیلاب متاثرین،2012 میں آسام فساد متاثرین،2013 میں مظفرنگرفساد متاثرین2014 کشمیر سیلاب متاثرین اور 2015میں نیپال زلزلہ متاثرین،اگست2015میں چنئی سیلاب متاثرین، بہار سیلاب متاثرین2017 کے لیے جمعےۃ علماء ہند کی مسلسل خدمات اور پوری توجہ سے ان کی بازآبادکاری نے مولانا مدنی کو عوامی حلقے میں کافی مقبول کردیا ہے۔
۲۔ دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ بے قصور افراد کے لیے قانونی جد وجہد
جمعےۃ نے نہ صرف دہشت گردی کی سخت مذمت کی بلکہ وہ لوگ جو دہشت گردی کا شکا ر ہوئے یا اس کے نام پر غلط طریقے سے پھنسائے گئے، ان کے لیے بھی مقدمہ لڑتی ہے، حال میں آسام فساد کے بعد غلط طریقے سے جیل میں بند افراد کی رہائی عمل میں آئی۔ یہ مولانا محمود مدنی صاحب کی طویل جد وجہد کی و جہ سے ممکن ہوا، اسی طرح گجرات فساد کے مجرموں کو عمر قید کی سزا ہوئی، یہ بھی ان کی جد و جہد کا حصہ ہے۔اسی طرح مولانا مدنی اس ملک میں نہ جانے کتنے لوگو ں کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ایک تفصیل کے مطابق ملک بھر میں جمعیت ایک سو پچاس سے زائد مقدمات لڑرہی ہے اور مولانا مدنی نے باضابطہ اعلان کردیا ہے کہ جہاں کہیں کوئی بے قصور گرفتار ہو، وہ ان سے رابطہ کریں ان کا تعاون کیا جائے گا۔
۳۔دہشت گردی کے خلاف طویل جدوجہد:
اسلام کے پیغام امن کی اشاعت اور دہشت گردی کے خلاف طویل جد وجہد کا آغاز باضابطہ طور سے2007سے ہوا تھا، جب مولانا محمود مدنی صاحب کی قیادت میں جمعےۃ علماء ہند نے پارلیامنٹ انیکسی میں علماء کانفرنس منعقد کی۔ جس میں ارباب اقتدار کو مدعوکیا گیا او ران کے سامنے ملک کے سبھی طبقوں کے علماء نے اسلام کا موقف مضبوطی سے پیش کیا۔ اس کے بعد سال2008ء میں دیوبند سے فتوی طلب کرکے ملک کے گوشے گوشے میں دو سو سے زائد بڑی کانفرنسیں منعقد کرکے نہ صرف دہشت گردی کی سخت مذمت کی بلکہ اس کو اسلام سے نتھی کرنے والوں کو آئینہ بھی دکھا یا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ سال 2013ء میں دیوبند اور دہلی میں امن عا لم کانفرنس میں سارک ممالک کے مقتدر علماء کے ساتھ مل کر اسلام کے ذریعے انسانیت کا پیغام متفقہ طور سے پھیلا یا۔ان پروگراموں کا اثر یہ ہوا کہ ایک پیغام یہ گیا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔چنانچہ امریکہ جس نے سب سے پہلے اسلامک ٹیررز م کی اصطلاح پیدا کی تھی اس نے باضابطہ سرکاری طور سے اس اصطلاح کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ اب اسلامک آتنک واد یا ٹیررزم کا لفظ استعمال نہیں ہوگا۔
۴۔امت مسلمہ کی تعلیمی حالت کو بدلنے کی کوشش:
مولانا محمود مدنی صاحب عوام اور جدید طبقے میں یکساں طور سے مقبول ہیں: اس کی وجہ ان کی بہتر سوچ اور اعلی فکر ہے۔ مولانا مدنی نے مسلم قوم کی تعلیمی بدحالی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ مسلمانو! آج سے عہد کرلو یہ آدھی روٹی کھائیں مگر بچوں کو پڑھائیں گے یہ نعرہ کافی مقبول ہوا۔ انھوں نے تعلیمی سطح پر قوم کو بہتر کرنے کے لیے مختلف قسم کے ادارے بھی قائم کیے ہیں او رمسلسل اس جہت میں جد وجہد کررہے ہیں۔ یہ مولانا محمود مدنی صاحب کی تعلیمی سوچ کا بہتر مظہر تھا کہ ایک غیر مسلم شخص نوین چند بھاٹیہ نے وہاں انجار میں 12ایکڑ زمین مفت مہیا کردی تا کہ جمعیت وہاں تعلیمی ادارے قائم کرسکے۔گجرات فساد کے بعدیتیم بچوں کے لیے جمعےۃ چلڈرن ولیج اسی جگہ پر قائم ہے، جہاں یتیم بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
۵۔ وطن سے محبت کے اظہار کا نرالا انداز اور مسلم قوم کے حقوق کی بے خوف آواز
برادران وطن کی اکثریت کو اپنا خیرخواہ مانتے ہوئے ملک کے آئین اور وطن سے محبت کے اظہار کے لیے مولانا محمود مدنی نے جس خوبصورتی سے اپنی بات پیش کی ہے اسے کافی قبولیت ملی، ہم اس ملک کے حصے دار ہیں، کرایہ دار نہیںمذہب او ر وطن یہ دونوں میری آنکھوں کی طرح ہیں، اب کسے الگ کروںوطن سے محبت میرے دین اور ایمان کا حصہ ہے
دوسری طرف مسلمانوں کے مسائل کواٹھانے کے لیے ملک کے کونے کونے میں بڑے بڑے اجلاس کرکے، ارباب اقتدار سے ملاقات کرکے جوبالغانہ طرز اختیار کیا ہے، اس کی جنتی ستائش کی جائے کم ہے ۔
۶۔مدارس اور مساجد کے محافظ:
2009میں ملک میں آرٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں آیا، مدارس نشانہ پر تھے، اس کے خلاف مولانا محمود مدنی کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ باضابطہ حکومت نے جی آر جاری کرکے مدارس کو مستثنی کردیا۔اسی طرح بند مساجد کی واگزاری کے لیے مولانا محمود مدنی صاحب کی جدوجہد جاری ہے۔انھوں نے جس جارحانہ تیور کے ساتھ اس جد وجہد کو شروع کیا وہ ان کے مضبوط ایمان اور عقیدہ کو ظاہر کرتا ہے۔ انھوں نے فروری 2016ء میرٹھ کے اجلاس میں کہا کہاگر میرا دین اور میرا مذہب ہی نہ رہے تو میری زندگی کا کیا مطلب ہے۔
۷۔متحدہ قومیت کے سب سے علم بردار
ان کے دادا جان شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ نے تقسیم وطن کی مخالفت کی تھی، انھوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری قوت سے اس کو ثابت کیا کہ ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوتا،ملک تو جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگوں سے بنتا ہے، جو الگ الگ سوچ اور فکر کے ہوسکتے ہیں۔ اس کے پیچھے ان کی وسیع فکر اور دین اسلام کی درست سمجھ کار فرما تھی۔ وقت نے ثابت کردیا کہ دوراندیشی اور دانائی والی یہ فکر ہمیشہ کے لیے ایک رہ نما ہے۔ آج کے دور میں جب کہ ایک بار پھر مذہب کے نام پر ملک کی حد بندی کی کوشش کی جارہی ہے، متحدہ قومیت کی اس سوچ کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ مولانا محمود مدنی صاحب اس وقت اس سوچ کے سب سے بڑے علم بردار ہیں اور مختلف جلسوں اور تقریروں میں اس کی افادیت پر اپنا موقف پیش کرچکے ہیں۔
۸۔خواتین کے حقوق کے حامی
مولانا محمود مدنی نے سماجی سوچ کو بدلنے کے لیے عورتوں کے حقوق سے متعلق اسلام اور شریعت محمدی کا ماڈل پیش کرکے لاکھوں کے مجمع میں ارباب اقتدار سے کہا کہ زرعی جائیداد میں بیٹیوں کو محروم کرنے کا قانون ختم کیا جائے۔ یہ اکتیسویں اجلاس عام جمعےۃ علماء ہند کی بات ہے، دنیا کے سامنے یہ بات کھل کرنے کہنے کا یہ سہرا مولانا محمو دمدنی کو جاتا ہے۔
۹۔دلت مسلم اتحاد کے ذریعے مظلوموں کے لیے سماجی جد وجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش
دلتوں اور آدی واسی کے حالات پر بات کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان مظلوم ہیں، لیکن ہم دوسروں کے مصائب کو نظر انداز نہیں کرسکتے، وہ شخص سچا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جو دوسروں کو زخمی دیکھ کر نظر پھیر لے۔صرف بات نہیں بلکہ دلتوں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلانا، ان کی تھالی میں کھا کر ان کو اپنا بھائی بنانا یہ سب تحریکات نے مولانا محمود مدنی کو دلتوں کی نگاہ میں بھی کافی بلند کردیا ہے۔ مولانا محمود مدنی صاحب کے والد محترم مولانا اسعد مدنی صاحب نے اس تحریک کو پروان چڑھایا تھا، وہ دلتوں سے اتحاد کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔
۰۱۔ اتحاد ملت کے لیے جد وجہد کا اعلان
سو سال سے دیوبندی بریلوی اختلاف کی وجہ سے پیدا عداوت ودوری کو ختم کرنے کا بیڑا مولانا محمود مدنی نے اٹھا یا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عداوت ختم ہو نی چاہیے، نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، مگر دوریاں اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی کوشش کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے۔اس سلسلے میں ہر طرح کوشش ہو رہی ہے، ان شا ء اللہ جلد ہی بہتر ہونے کی امید ہے۔
۱۱۔ مسلم قوم کے لیے ریزرویشن کی تحریک:
آج سے بیس سال قبل جب مسلم اقلیت کے لیے ریزرویشن کی بات کرنا جرم تھی، یہ مولانا اسعد مدنی ؒ تھے جنھوں نے بنانگ دہل مسلم اقلیت کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کیا تھا اور منظم طریقہ سے 22لاکھ سے زا ئد دستحظ کراکے اس وقت صدرجمہوریہ ہند کو میمورنڈم پیش کیا،یہ ریزرویشن تحریک کا باضابطہ آغاز تھا، جسے بعد میں مولانا محمود مدنی صاحب نے جاری رکھا، آج ملک کی کئی ریاستو ں میں مسلم اقلیت ریزرویشن کے فوائد سے بہرہ ور ہورہے ہیں، دوسری طرف جہاں رکاوٹیں ہیں اس کے لیے جمعےۃ باضابطہ سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑرہی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں