کیا نبی ﷺکی پیدائش کی رات شب قدرسے بھی افضل ہے ؟
مقبول احمد سلفی
داعی ؍اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)
اکثرصوفی کا یہ کہنا ہے کہ نبی ﷺکی پیدائش کی رات شب قدر سے بھی افضل ہے بلکہ یہ کہہ لیں صوفیاء کا اس بات پہ اتفاق ہے اور اس بات کی چند وجوہات پیش کرتے ہیں ۔
(1 نبی کی پیدائش کی رات، نبی کے ظہور کی رات ہے اور شب قدر عطا کی رات ہے اس وجہ سے نبی کے ظہور کا شرف عطاکے شرف سے افضل ہے ۔
(2 شب قدر فرشتوں کے نزول کی وجہ سے باعث شرف ہے جبکہ مولد نبوی کی رات نبی ﷺ کے ظہور سے مشرف ہے اس وجہ سے شب مولد ، شب قدر سے افضل ہے ۔
(3 شب قدر کی فضیلت صرف امت محمدیہ پر ہے جبکہ شب مولد کی فضیلت سارے موجودات پر ہے ، اللہ نے آپ کو سارے عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا اس طرح سے آپ کی نعمت پوری مخلوق پر عام ہے تو شب مولد باعتبار نفع عام ہے ۔
میدان تصوف میں یہ سب صوفیاء کی اختراعات وایجادات ہیں ، شرعا ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ان باتوں پر شرع سے کوئی دلیل واردنہیں ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نبی ﷺ کا ظہور باعث رحمت وباعث شرف وفضیلت ہے مگربغیر ثبوت کے پیدائش کی رات کی فضیلت بیان کرنا اور اسے شب قدر سے افضل قرار دینا باطل ومردود ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا نبی ﷺ نے اپنے فرمان میں شب مولد کی کوئی فضیلت نہیں بتائی ہے ، اس کے برعکس کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں شب قدر کے بہت فضائل ہیں ۔
لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت پہ ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے جس سے اس کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ،وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ، لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ، تَنَزَّلُ الْمَلَاءِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ أَمْرٍ ، سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورۃ القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلۃالقدرکیا ہے ۔لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
اس سورت میں چند فضائل کا ذکر ہے ۔
* شب قدر میں قرآن کا نزول ہوا یعنی یکبارگی مکمل قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا جو تئیس سالوں میں قلب محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔
*یہ قدرومنزلت والی رات ہے ، قدر کی تفصیل اللہ نے ہزار مہینوں سے بیان کی جو مبالغہ پر دلالت کرتاہے یعنی یہ رات ہزاروں مہ و سال سے بہتر ہے ۔
* یہ اس قدر عظیم رات ہے کہ اس میں فرشتوں بالخصوص جبریل علیہ السلام کا نزول ہوتا ہے ان کاموں کو سرانجام دینے جن کا فیصلہ اللہ تعالی اس سال کے لئے کرتا ہے ۔
* یہ مکمل رات سراپہ امن و سلامتی والی ہے ۔ مومن بندہ شیطان کے شر سے محفوظ ہوکر رب کی خالص عبادت کرتا ہے ۔
* اس رات سال میں ہونے والے موت وحیات اور وسائل حیات کے بارے میں سال بھر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ(الدخان:4)
ترجمہ: اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
* لیلۃ القدر میں قیام کا اجر پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
مَن قام لیلۃَ القدرِ إیمانًا واحتسابًا، غُفِرَ لہ ما تقدَّمَ من ذنبِہ(صحیح البخاری:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
* لیلۃ القدر کی فضیلت سے محروم ہونے والا ہرقسم کی بھلائی سے محروم ہے ۔
دخلَ رمضانُ فقالَ رسولُ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ إنَّ ہذا الشَّہرَ قَد حضرَکُم وفیہِ لیلۃٌ خیرٌ مِن ألفِ شَہْرٍ من حُرِمَہا فقد حُرِمَ الخیرَ کُلَّہُ ولا یُحرَمُ خیرَہا إلَّا محرومٌٍ(صحیح ابن ماجہ:1341)
ترجمہ: ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تونبی ?نے فرمایا کہ: تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سیافضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلائی سے محروم رہ گیا۔
ان کے علاوہ بھی بے شمار فضائل ہیں بخوف طوالت اتنے پہ ہی اکتفا کیا جارہاہے کیونکہ انہی باتوں سے شب قدر کی افضلیت کا اندازہ لگانا کافی ہے ۔
صوفی اور بریلوی حضرات شب مولد کی افضیلت پہ بعض علماء کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک قول جو زیادہ نشر کیاجاتا ہے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (239۔ 321ھ) کا ہے جوکہ آپ بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں :
أن أفضل اللیالی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ثم لیلۃ القدر، ثم لیلۃ الإسراء والمعراج، ثم لیلۃ عرفۃ، ثم لیلۃ الجمعۃ، ثم لیلۃ النصف من شعبان، ثم لیلۃ العید.
ترجمہ:راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، پھر شبِ قدر، پھر شبِ اِسراء و معراج، پھر شبِ عرفہ، پھر شبِ جمعہ، پھر شعبان کی پندرہویں شب اور پھر شبِ عید ہے۔
علامہ شہاب الدین محمود آلوسی امام طحاوی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں "أنا لا أری أن لہ ما یعول علیہ فی ذلک" میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس بات پر اعتماد کیاجائے گا۔ (دیکھیں تفسیرآلوسی: 30/194)
یعنی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اس پہ اعتماد نہیں کیاجائے گا۔ اس قول میں کئی باتوں کا ثبوت نہیں ہے اور کئی باتیں قابل تنبیہ ہیں ۔
* شب مولد کی فضیلت پہ کوئی نص موجود نہیں ہے ۔
* شب اسراء ومعراج کی بھی اس حیثیت سے کوئی فضیلت نہیں کہ اس رات قیام وعبادت یا شب بیداری کی فضیلت ہے جبکہ صوفیاء کے یہاں 27/رجب کو متعدد عبادات انجام دئے جاتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں نیز شب اسراء ومعراج کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے ۔
* یوم عرفہ کی فضیلت تو ثابت ہے مگر شب عرفہ کی فضیلت پہ الگ سے نص واردنہیں ہے سوائے اس کے کہ ایام حج میں سے اور عشرہ ذی الحجہ میں سے ہے ۔
* یوم جمعہ کے دن اور رات کی فضیلت ثابت ہے ۔
جمعہ کے دن یا رات میں وفات پانا حسن خاتمہ کی علامت ہے ۔
عبداللہ بن عمر عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ما مِن مسلمٍ یموتُ یومَ الجمعۃِ أو لیلۃَ الجمعۃِ إلَّا وقاہُ اللَّہُ فِتنۃَ القبرِ(صحیح الترمذی: 1074)
ترجمہ :جو کوئی مسلمان جعمہ کی رات یا دن میں وفات پاتا ہے اللہ تعالٰی اس کو عذاب قبر سے بچاتا ہے۔
اسی طرح جمعہ کے دن یا رات میں سورہ کہف پڑھنا مسنون ہے لیکن جمعہ کی رات کو قیام یا صدقہ کے ساتھ خاص کرنے سے منع کیاگیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تختصُّوا لیلۃَ الجمعۃِ بقیامٍ من بین اللَّیالی . ولا تخصُّوا یومَ الجمعۃِ بصیامٍ من بینِ الأیَّامِ . إلَّا أنْ یکونَ فی صومٍ یصومُہُ أحدُکُمْ(صحیح مسلم:1144)
ترجمہ:جمعہ کی رات کو قیام کے لیے خاص نہ کرو، اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزے کے لیے خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کوئی سلسلہ وار روزے رکھ رہا ہو۔
* شعبان کی پندرہویں رات سے متعلق بہت ساری ضعیف وموضوع روایات پائی جاتی ہیں جن پراعتماد نہیں کیاجائے گا تاہم بعض صحیح روایات بھی ہیں جن سے اس رات کی فضیلت ثابت ہوتی ہے پھر بھی اس رات کو قیام وطعام سے مختص کرنا کسی نص سے ثابت نہیں ہے ۔
* شب عید کی فضیلت پہ کوئی صحیح روایت نہیں ہے ۔
* مذکورہ قول میں افضیلت کی درجہ بندی پہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
خلاصہ کے طور پر یہ جان لیں کہ راتوں میں سب سے افضل رات شب قدر ہے جو نص سے ثابت ہے اور صوفیاء کا یہ قول باطل ہے کہ شب مولد شب قدر سے افضل ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں